دم ہوا کے سوا کچھ اور نہیں
دم ہوا کے سوا کچھ اور نہیں
بت خدا کے سوا کچھ اور نہیں
شعر فہمی کہاں کہ اب لب پر
مرحبا کے سوا کچھ اور نہیں
آدمی ہے مگر ادھورا ہے
پارسا کے سوا کچھ اور نہیں
راہ ہستی کی منزل موہوم
نقش پا کے سوا کچھ اور نہیں
ابتدا درد دل کی کیا کہئے
انتہا کے سوا کچھ اور نہیں
اپنی پہچان آپ پیدا کر
تو ضیاؔ کے سوا کچھ اور نہیں