دعوت انقلاب
کیا لے گا خاک مردہ و افتادہ بن کے تو
طوفان بن کہ ہے تری فطرت میں انقلاب
کیوں ٹمٹمائے کرمک شب تاب کی طرح
بن سکتا ہے تو اوج فلک پر اگر شہاب
وہ خاک ہو کہ جس میں ملیں ریزہ ہائے زر
وہ سنگ بن کہ جس سے نکلتے ہیں لعل ناب
چڑیوں کی طرح دانے پہ گرتا ہے کس لیے
پرواز رکھ بلند کہ تو بن سکے عقاب
وہ چشمہ بن کہ جس سے ہوں سرسبز کھیتیاں
رہ رو کو تو فریب نہ دے صورت سراب