داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی

داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی
سننے والوں میں توجہ کی کمی پائی گئی


فکر ہے سہمی ہوئی جذبہ ہے مرجھایا ہوا
موج کی شورش گئی دریا کی گہرائی گئی


حسن بھی ہے مصلحت بیں عشق بھی دنیا شناس
آپ کی شہرت گئی یاروں کی رسوائی گئی


ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی


زخم ملتے ہیں علاج زخم دل ملتا نہیں
وضع قاتل رہ گئی رسم مسیحائی گئی


گرد اڑائی جو سیاست نے وہ آخر دھل گئی
اہل دل کی خاک میں بھی زندگی پائی گئی


میری مدھم لے کا جادو اب بھی باقی ہے سرورؔ
فصل کے نغمے گئے موسم کی شہنائی گئی