دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے

دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے
بات کیجے گا ذرا سوچ سمجھ کر مجھ سے


مجھے کھلتی نہیں تنہائی سفر کی یوں بھی
گفتگو کرتے ہیں سب راہ کے پتھر مجھ سے


وہ جو ہیں لذت تفہیم سخن سے واقف
شعر سنتے ہیں وہی لوگ مکرر مجھ سے


مجھ کو ڈر تھا کہ کہیں فاصلے بڑھ جائیں مگر
وہ قریب آ گیا کچھ اور سمٹ کر مجھ سے


وہ جو بچھڑا ہے سخن لوٹ کے کب آئے گا
پوچھتے رہتے ہیں یہ شام کے منظر مجھ سے