داغ کی شعری حکمت عملی کے چند پہلو
نواب مرزا داغ اردو کی کلاسیکی شعری روایت کے آخری اہم ترین شعرا میں ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں ”اہم ترین“ کا لفظ میں نے دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، اور جان بوجھ کر داغ کو بڑا یا عظیم شاعر کہنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ معمولی اور کمتر درجے کے شاعر ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جدید زمانے میں داغ کو عام طور پر جس حیثیت سے دیکھا گیا، اور ان کے بارے میں جو خیالات مشہور کیے گئے، اس کی روشنی میں داغ ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں، جس کی تقریباً تمام شاعری محض تفریحی قسم کی اور سطحی جذبات و احساسات کی حامل ٹھہرائی گئی ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر داغ کو کسی حد تک قابل ذکر سمجھا بھی گیا، تو اس کا سہرا ان کی زبان دانی اور محاوروں کے برجستہ استعمال وغیرہ کے سر رکھا گیا۔ اس کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ داغ کے جو اشعار عام طور سے زبان زد رہے ہیں، وہ وہی ہیں جن میں داغ نے اردو زبان کی غیرمعمولی حیثیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اپنی زبان دانی کا برملا اظہار کیا ہے۔ مثلاً اس شعر سے بھلا کون واقف نہ ہوگا،
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اوریہ شعر بھی،
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں داغ کی شہرت کی عمارت زیادہ تر ایسے اشعار پر قائم کی گئی، جن سے ان کی مہارت زبان وغیرہ کا اظہار ہوتا تھا۔ اسی کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ داغ کی استادی کا چرچا بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا رہاہے، اور یہ کچھ بے جا بھی نہیں۔ لیکن مشکل یہ آپڑی کہ کلاسیکی دور میں استادی کا جو تصور تھا، وہ جدید زمانے میں بوجوہ تبدیل ہو گیا۔ کلاسیکی عہد میں استاد ہونے کے صرف یہ معنی نہیں تھے کہ جس شاعر سے لوگ شعر کا فن سیکھیں اور شعرگوئی کی تربیت حاصل کریں، وہی استاد کہلانے کا مستحق ہے، بلکہ استاد ہونے کے لازمی طور پر یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ استاد وہ شاعر ہے جو فن شعر کے تمام اصول و قواعد سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہے، بلکہ ان اصولوں کو پوری مہارت کے ساتھ برتنے پر بھی قادر ہے۔ اس طرح ہماری کلاسیکی تہذیب اچھے اور بڑے شاعر میں اور استاد شاعر میں فرق نہیں کرتی تھی۔ کسی شاعر کے استاد ہونے کے معنی ہی یہ تھے کہ وہ چاہے بڑاشاعر نہ ہو، لیکن اچھا اور قابل ذکر شاعر ضرور ہے۔ اسی کے ساتھ اس تہذیب میں یہ بھی تھا کہ اچھے یا استاد شاعر ہونے کی بنیاد شاعری کے فنی معیاروں پر قائم تھی۔ ”مقدمۂ شعر و شاعری“ میں جہاں حالی نے اعلیٰ درجے کے شعرا کے کلام کی عمومی کیفیت کا ذکر کیا ہے، وہاں انھوں نے ان شعرا کے لیے بڑے یا عظیم کا لفظ نہیں استعمال کیا، بلکہ انھیں استاد ہی کہا ہے۔ حالی کہتے ہیں،
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں، یا جن کو استاد ماننا چاہیے، ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن ولطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو۔ کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔
اس اقتباس سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔ لیکن جب ہم کلاسیکی عہد کے بعد یعنی جدید زمانے میں استاد کے معروف تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی صورت بہت بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اب استاد ہونے کے یہ معنی سمجھے اور سمجھائے گئے کہ جو شاعر فن شعر کے اصولوں سے واقف ہو اور زبان وغیرہ پوری صحت و درستی کے ساتھ استعمال کرے، وہ استاد کہلائے گا، اور یہ بھی کہ اس کے شاگردوں کا ایک حلقہ بھی ہو۔ یہاں تک تو بات پھر بھی ٹھیک تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ تصور بھی وابستہ ہو گیا کہ چونکہ استاد شعرا زیادہ تر صحت زبان وبیان ہی پر قناعت کرتے ہیں، اس لیے ان کے یہاں اچھی شاعری یا اعلیٰ درجے کی شاعری کی تلاش بے سود ہے۔ اس تصور کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اچھااورقابل ذکریا بڑا شاعر ہونے کے لیے استاد ہوناضروری نہیں۔ ذرا آپ غور کریں کہ اگر کوئی شاعر اپنے کلام میں زبان وبیان کی صحت کا خیال نہیں رکھتا، اور فنی اصولوں کو درستی کے ساتھ برتنے پر قادر نہیں ہے تو اس کا اچھا اور بڑا شاعر ہونا تو دور رہا، اس کا شاعر ہونا ہی معرض سوال میں آ جائے گا۔ ظاہر ہے، استادی کے اس جدید تصور کے زیر اثر ہمارے بہت سے قابل ذکر اور بلند پایہ شعرا وہ حیثیت حاصل نہ کر سکے، جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق تھے۔ افسوس کہ ان میں داغ جیسا بے مثال اور بلند مرتبہ شاعر بھی شامل ہے۔ چنانچہ داغ کی شاعرانہ حیثیت کے بارے میں جن باتوں کو بے انتہا شہرت حاصل ہے، ان کا ماحصل صرف یہی نکلتا ہے کہ داغ کی استادی میں تو کوئی شبہ نہیں، لیکن وہ شاعر معمولی درجے کے تھے۔
یہاں میرا مقصد داغ کے شاعرانہ مرتبے کو زیر بحث لانا نہیں، بلکہ ان کی شعری حکمت عملی کے کچھ پہلوؤں کی نشان دہی کرنا ہے، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ لیکن چونکہ داغ کے شاعرانہ مرتبے کی تخفیف کا کام کچھ زیادہ ہی زور شور کے ساتھ کیا گیا ہے، اس لیے اس ضمن میں اتنا کہے بغیرمیں نہیں رہ سکتاکہ شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سے داغ کی حیثیت اگر کمتر ہے تو یہ کمتری بڑے کلاسیکی شعرا کے مقابلے میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ناسخ، مصحفی، ذوق اور مومن وغیرہ کی حیثیت میر اور غالب کے سامنے ہے۔ لہٰذا جب داغ کو کمتر کہا جائے گا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوں گے کہ وہ ہما شما کے مقابلے میں کمتر ہیں۔
چونکہ شعری حکمت عملی کے بنیادی عناصر کا تعلق فن شعر کے اصولوں سے ہے، اس لیے داغ کی شعری حکمت عملی کو بھی اسی روشنی میں دیکھنا مناسب اور بامعنی ہوگا۔ داغ نے اپنے شاگردوں کی ہدایت کے لیے جو ”پندنامہ“ لکھا ہے، اس میں فن شعر کے تقریباً تمام اصول بیان کر دیے ہیں۔ ان میں زیادہ تر باتیں تو مطلق اصول کی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی ان کی پابندی ہر شاعر کے لیے اور ہمیشہ ناگزیر ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی بھی بیان ہوئی ہیں جنھیں مختلف فیہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی داغ ان کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن دیگر شعرا کا عمل اس سے مختلف ہے یا ہو سکتا ہے۔ یہاں ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، البتہ چند کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس پند نامے میں داغ نے سب سے پہلے جس چیز کا ذکر کیا ہے، وہ بندش کی چستی ہے۔ ہماری شعری تہذیب میں بندش کی چستی سے یہ مراد لیا گیا ہے کہ شعر میں جتنے الفاظ لائے جائیں، ان کی نشست ایسی ہو کہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا نہ جا سکے۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ شعر میں مستعمل ہر لفظ معنی و مضمون کے لحاظ سے کارگر ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لفظ بھرتی کا ہے۔ ظاہر ہے، اس سے بھی شعر کی بندش متاثر ہوتی ہے۔ اس پہلو کو خواجہ حیدر علی آتش نے بڑی خوبی سے ایک شعر میں بیان کیا ہے۔
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
شعر میں ایک لفظ بھی اگر پوری طرح کام نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس لفظ کی جگہ شعر میں خالی رہ گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شعر جو مثل نگینے کے ہے، اس میں ایک نگ نہیں ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایسی صورت میں شعر کو فنی اعتبار سے مکمل کیونکر کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ شعر میں بندش الفاظ کی اہمیت بنیادی اور غیرمعمولی ہے۔ مضمون خواہ کیسا بھی ہو، بندش کا چست ہونا کامیاب شعر کی اولین شرائط میں ہے۔ اب بطور مثال داغ کے چند اشعار بھی دیکھتے چلیں، تاکہ اس صفت کا اندازہ ہو سکے،
آج گھبرا کر وہ بولے جب سنے نالے مرے
جان کے پیچھے پڑے ہیں چاہنے والے مرے
بیٹھیں گے نہ خاموش ہم اے چرخ ستمگار
تھک جائیں گے نالوں سے تو فریاد کریں گے
کچھ نہ ہو تیری محبت میں پر اتنا ہو جائے
کہ تری بدمزگی مجھ کو گوارا ہو جائے
ان اشعار پر الگ الگ گفتگو طوالت کا سبب ہوگی، اس لیے صرف آخری شعر میں ایک لفظ کی طرف توجہ دلانے پر اکتفا کرتا ہوں۔ لفظ ”گوارا“ کو عام طور پر قابل برداشت کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے معنی میٹھے اور لذیذ کے ہیں۔ اسی لیے ”آب گوارا“ کی ترکیب میٹھے اور لذیذ پانی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اب دوسرے مصرعے میں بدمزگی کے ساتھ ”گوارا“ کے استعمال کو دیکھیے اور داد دیجیے۔ علاوہ ازیں لفظ ”گوارا“ میں داغ نے ایہام کا پہلو بھی رکھ دیا ہے۔
کلاسیکی شعری تہذیب میں ایہام کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معنی آفرینی کے وسائل میں اسے ایک نہایت کارگر وسیلے کی حیثیت بھی حاصل رہی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جدید زمانے میں اسے نہایت مکروہ اور مضرت رساں کہہ کر مطعون کیا گیا۔ ایہام کے بارے میں داغ کیا رائے رکھتے ہیں، اسے انھیں کی زبان سے سن لیتے ہیں۔ ”پندنامہ“ کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
شعر میں آئے جو ایہام کسی موقع پر
کیفیت اس میں بھی ہے وہ بھی نہایت اچھا
اس شعر کی روشنی میں ایہام کے تئیں داغ کا موقف اس کے سوا اور کیا ظاہر کرتا ہے کہ ایہام ان کی نظر میں مستحسن ہے۔ بہرحال یہ تو ان کی رائے تھی۔ اب ان کا عمل بھی دیکھ لیا جائے۔ ان کا مشہور مطلع ہے۔
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتطار کیا
یہاں لفظ ”قیامت“ کا ایہام داد سے مستغنی ہے۔ پھر مزید لطف یہ کہ ”قیامت کا انتظار“ کا پورا فقرہ ایہام کی کیفیت رکھتا ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ یہ انتظار نہایت تکلیف دہ ہے، دوسرے یہ معنی کہ معشوق خود قیامت ہے۔ لہٰذا اس کا انتظار گویا قیامت کے انتظار کی طرح تھا۔ ایہام کی کارفرمائی کی ایک مثال اور دیکھئے،
لگی ہے پنجۂ مژگاں میں خون دل سے حنا
ہماری آنکھ ملی سب سے سرخ رو ہو کر
یہ شعر مضمون آفرینی کی نہایت عمدہ مثال تو ہے ہی، ساتھ ہی اس میں ایہام رکھ کر داغ نے معنی آفرینی کے بھی مزید ابعاد روشن کر دیے ہیں۔ یہاں بیک وقت دو لفظوں کو ایہام کا حامل بنایا گیا ہے۔ یہ الفاظ ”سرخ رو“ اور ”ملی“ ہیں۔ ”سرخ رو“ کے معنی کامیاب و کامران کے ہیں، لیکن لغوی معنی کے لحاظ سے سرخ رو وہ ہے، جس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو۔ اسی طرح ”آنکھ ملی“ کے ایک معنی ہیں، ”آنکھیں چار ہوئیں‘‘ اور دوسرے معنی ہیں ”آنکھ نے ملاقات کی“ جیسے ہم کہتے ہیں، ہم ان سے مودب ہو کر ملے۔ آپ یہ بھی غور کریں کہ مژگاں کو آنکھ کا چہرہ کہنا کس قدر مناسب، با معنی اور بدیع ہے۔ پورا شعر نہایت اعلیٰ درجے کی فنکاری کا نمونہ ہے۔
کلاسیکی شعرا کو پڑھنے کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں۔ اگر انھیں پیش نظر نہ رکھا جائے تو ان شعرا کو پڑھنا ہمیں درست نتائج تک نہیں پہنچا سکتا۔ داغ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس پہلو کی طرف شمس الرحمن فاروقی نے خاص طور سے توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے،
ہمارے یہاں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ہم کلاسیکی شاعروں کو پڑھتے وقت یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کلاسیکی شاعر کے پہلے کسی نے کیا کہا، اور اس کلاسیکی شاعر کے بعد کسی نے کیا کہا؟اس کو دھیان میں رکھے بغیر آپ اس شاعر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ سب لوگ Intertextual ہیں۔ ایک کا سرا ایک سے جڑا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے مثلاً منیر نیازی کے بارے میں میں کہوں کہ ان کو پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ داغ کو پڑھیں یا امیر کو پڑھیں۔ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ نہیں، ضروری نہیں ہے۔ لیکن داغ کو، جلال کویا امیر کو پڑھنے کے لیے یہ قطعی ضروری ہے کہ آپ فارسی اردو کے شعرا، جو ان کے پہلے ہو چکے ہیں اور جن سے یہ متاثر ہوئے، جن کے ساتھ ساتھ اور جن کی روشنی میں انھوں نے اپنے کو شاعر سمجھا، ان کو دیکھیں کہ انھوں نے کیسے شعر کہے۔ اور یہ دیکھیں کہ ان پیش روؤں اور معاصروں کی بنائی ہوئی دنیا میں داغ یا امیر یا جلال کہاں کھڑے ہیں۔
اس اقتباس میں جس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اس میں بیک وقت کئی باتیں شامل ہیں۔ لیکن اس میں سب سے بنیادی بات فارسی اور اردو غزل کی پوری شاعری میں مضامین کی وحدت کا معاملہ ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کلاسیکی غزل کا کوئی شعر مضمون کے لحاظ سے اپنا بالکل جداگانہ وجود نہیں رکھتا، تو اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ سارے مضامین کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس پہلو سے جب ہم داغ کے اشعار پر غور کرتے ہیں تو نہایت دلچسپ صورتیں نظرآتی ہیں، اور اس سے داغ کی غیر معمولی تخلیقی کارکردگی کااندازہ ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
والہ داغستانی کا شعر ہے،
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جانست
اب دیکھیے اس مضمون کو میر کہاں لے جاتے ہیں،
جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل
اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل
آپ دیکھیں کہ اس مضمون پر مبنی ایسے زبردست دو شعروں کے سامنے داغ اپنا چراغ جلاتے ہیں، اور حق یہ ہے کہ داغ کا شعر بھی اپنی جگہ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے،
بہت آنکھیں ہیں فرش راہ چلنا دیکھ کر ظالم
کف نازک میں کانٹا چبھ نہ جائے کوئی مژگاں کا
داغ کی قابل ذکر شاعرانہ حیثیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ غالب جیسا عظیم شاعر ان کے کلام کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے، اور یہی نہیں بلکہ فرمائش کرکے اپنی غزلوں پر غزلیں کہلاتا ہے۔ چنانچہ داغ کی بہت سی غزلیں غالب کی زمین میں ہیں۔ غالب کی مشہور غزل کا مطلع ہے،
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
داغ نے اس زمین میں غزل کہی اور مطلعے میں مضمون بھی تقریباً یہی باندھا۔ ملاحظہ ہو،
نہ کبھی جیب خجالت سے یہاں سر نکلا
قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا
غالب کے زبردست مصرع ثانی کے سامنے ”قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا“ جیسا مصرع کہہ کر مطلع بنانا معمولی بات نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ غالب نے تصویر کے پردے میں قیس کے عریاں نکلنے کی بات کہی، جس میں قول محال کی صورت ہے۔ داغ نے شاے د محسوس کر لیا تھا کہ اس سے آگے خیال کو لے جانا نہایت مشکل ہے، اس لیے انھوں نے جامے سے باہر نکلنے کا محاورہ اس طرح استعمال کیا کہ اس میں ایہام کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی۔ مزید یہ کہ انھوں نے ”قیس دیوانہ تھا“ کا ایسا بامعنی اور برجستہ فقرہ رکھ دیا جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔
ذوق کا مشہور زمانہ مطلع کس کو یاد نہ ہوگاجس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ غالب بھی اس پر سر دھنتے تھے،
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
حق تو یہ ہے کہ ایسے مضمون کو ہاتھ لگانا ہی بڑے دل گردے کی بات ہے۔ لیکن داغ کی قدرت بیان دیکھیے کہ اسی مضمون کو کہا اور خوب کہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ذوق کے شعر کی سی کیفیت اور برجستگی تو داغ کے یہاں پیدا نہیں ہوئی، لیکن ان کا شعر پھر بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو،
آرام کے لیے ہے تمھیں آرزوے مرگ
اے داغ اور جو چین نہ آیا فنا کے بعد
داغ کی شعری حکمت عملی کا ایک نہایت اہم پہلو زور بیان ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بیان کا زور وہیں زیادہ کارفرما ہوتا ہے، جہاں کلام میں برجستگی کی صفت زیادہ ہوتی ہے۔ اور برجستگی کے لیے عام طور سے کلام کی صفائی ضروری خیال کی جاتی ہے۔ اس صفت کو کلاسیکی ادبی تہذیب میں صفائی بیان، صفائی کلام اور صفاے گفتگو وغیرہ الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے زبان کی صفائی مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے مضمون کو ایسے پیرائے میں ادا کرنا مراد ہے، جس میں کوئی الجھاؤ کی کیفیت نہ پائی جائے۔ اس طرح دیکھا جائے تو صفائی بیان، برجستگی اور زور بیان سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اس صفت کی عملی صورت کے لیے داغ کے یہاں سے متعدد مثالیں لائی جا سکتی ہیں، لیکن یہاں ذوق اور داغ کے صرف ایک ایک شعر کی مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ پہلے ذوق کو سنیے،
حالت پہ مری کون تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھو کہ میں اف نہیں کرتا
اور داغ کا یہ مطلع دیکھیے،
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغ نام نہیں
صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دونوں شعر زور بیان کے لحاظ سے غیرمعمولی حیثیت کے حامل ہیں، اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، بیان کی صفائی اور برجستگی کی کیفیت بھی دونوں شعر میں برابر کی ہے۔ البتہ ان صفات کے علاوہ داغ کے یہاں شعر کی خوبی کے جو مزید پہلو ہیں، اس سے ذوق کا شعر خالی ہے۔ مثلاً داغ کے یہاں دل جلوں اور آگ لگانے میں تو مناسبت تھی ہی، لفظ ”داغ“ نے اس مناسبت کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہاں داغ کا لفظ محض اس لیے کارآمد نہیں ہے کہ یہ شاعر کا تخلص ہے، کیونکہ اگر تخلص سے وہ بات پیدا ہوتی تو داغ کی جگہ ذوق رکھ دینے سے بھی وہی کیفیت شعر میں قائم رہنی چاہیے۔ یعنی اس مصرع یوں کرکے دیکھیں،
اگر نہ آگ لگا دوں تو ذوق نام نہیں
معلوم ہوا کہ وہ کیفیت اب بڑی حد تک معدوم ہوگئی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اس میں محض تخلص کا عمل دخل نہیں ہے، بلکہ کچھ اور معاملہ بھی ہے۔ دراصل ”داغ“ کے کئی معنی ہیں، اور ان میں ایک مجازی معنی چراغ کے ہیں۔ داغ ہی کا ایک مشہور مطلع ہے،
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
خانۂ عشق بے چراغ ہوا
اس طرح ثابت ہوا کہ ذوق کے مقابلے میں داغ کے شعر میں زور بیان کے علاوہ جو مزید کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لفظ داغ تخلص ہونے کے ساتھ معنی کے لحاظ سے ”دل جلوں‘‘ اور”آگ لگا دوں‘‘ کے فقروں سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کے آخر میں داغ کے چند ایسے اشعار نقل کیے جائیں جو معروف نہیں ہیں، لیکن جن کو سن کر داغ کی شعری حکمت عملی کے مزید پہلوؤں کا احساس و ایقان ضرور ہوگا۔
کی ترک مے تو مائل پندار ہو گیا
میں توبہ کرکے اور گنہگار ہو گیا
انکار وصل منھ سے نہ نکلا کسی طرح
اپنے دہن سے تنگ وہ غنچہ دہن ہوا
کیا کیا ملائے خاک میں انسان چاند سے
سچ پوچھیے اگر تو زمیں آسماں ہے اب
وہی تو ہے شعلہ،
تجلی کہ دشت ایمن سے تنگ ہوکر
جب اس نے اپنی نمود چاہی کھلا حسینوں پہ رنگ ہوکر
ملے تھے لب ہی اس لب سے کہ مارا تیغ ابرو نے
یہ ناکامی کہ مجھ کو موت آئی آب حیواں پر
مرتبہ دیکھنے والے کا ترے ایسا ہے
کہ بٹھاتے ہیں جسے اہل نظر آنکھوں پر
بے کس رہیں گے حشر میں کب مجرمان عشق
رحمت کہے گی ہم ہیں گنہگار کی طرف
چاہی تھی داد ہم نے دل صاف کی مگر
آئینہ ہو گیا ترے رخسار کی طرف
دیکھیں تو پہلے کون مٹے اس کی راہ میں
بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ہر نقش پا سے ہم
ایسے شعروں کے ہوتے ہوئے داغ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے سنجیدگی سے غور کرنا نہایت ضروری ہے۔
(مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد، 19۔ شمارہ، 2 مدیر، ڈاکٹر قمر صدیق)