داغ کا رام پور
انسان کی طرح شہروں کی بھی ایک شخصیت ہوتی ہے جس سے شہر امتیاز حاصل کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں گھر بناتا ہے۔ دہلی کے ابتدائی دور کے شاعر مضمونؔ نے کہا تھا،
دل لیا مضمونؔ کا دلّی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں
اور حالیؔ نے اسی شہر کی محبت میں وطن کو بھلا دیا،
حالیؔ بس اب یقین ہے دلّی کے ہو رہے
ہے ذرہ ذرہ مہر فزا اس دیار کا
نظیرؔ اکبرآبادی آگرہ کی زلفوں میں اسیر تھے۔ امیرؔ مینائی اور بہت سے دوسرے شعرا لکھنؤ پر جان دیتے تھے۔ ریاضؔ خیرآبادی کو گورکھپور پسند تھا۔ اس طرح بعض مقامات بعض شاعروں کے تصور کو مہمیز کرنے اور ان کی جذباتی زندگی کا مرکز بن جانے کی وجہ سے شعر و ادب کی دنیا میں بھی احترام کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اگر اس حیثیت سے دیکھا جائے تو داغؔ کا تعلق رام پور سے جذباتی نہ تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور رام پور اور حیدرآباد میں ملازمت کی اور کلکتہ ان کے جذبات کا مرکز بنا۔ اس طرح ان کا واسطہ دہلی، رام پور، کلکتہ اور حیدرآباد چار شہروں سے رہا۔
بچپن کا کچھ حصہ نواب یوسف علی کے عہد میں دارالسرور رام پور میں بسر ہوا۔ حالانکہ رام پور اس وقت اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے اپنی دلکشی اور رنگینی کے لحاظ سے دارالسرور نہیں بنا تھا۔ پھر بھی داغ کا بچپن فراغت سے بسر ہوا۔ پھر جب داغؔ کی ماں چھوٹی بیگم۔۔۔ مغلیہ کے ولی عہد سے شادی کرکے دہلی کے لال قلعہ میں داخل ہو گئیں تو داغؔ بھی شہزادوں کی زندگی گزارنے لگے اور ۱۸۵۷ء کے انقلاب تک کم وبیش یہی حالت رہی۔ انقلاب غدر کے بعد دہلی کی تباہی پر داغؔ نے جو شہر آشوب لکھا ہے وہ دہلی سے ان کی وابستگی کا کھلا ہوا نشان ہے۔ لیکن جب وہاں قیام کا ٹھکانا ہی نہ رہا تو داغؔ نے بھی ایک ذریعہ تلاش کرکے رام پور کی راہ لی۔
وہ اس شہر سے پہلے ہی مانوس تھے حالانکہ اب بہت فرق ہو چکا تھا۔ اب وہ ایک اچھے شاعر کی حیثیت رکھتے تھے اور دربار رام پور میں جس طرح دہلی اور لکھنؤ کے بعض شعرا کی سرپرستی ہو رہی تھی، اس کے پیش نظر انہیں بھی یہی خیال پیدا ہوا کہ وہ درباری شعرا کے زمرے میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ابتدا انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ امیرؔ مینائی نے اپنے تذکرہ ’’یاد گارشعرا‘‘ میں وہاں کے کئی سو چھوٹے بڑے شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ اور دوسرے قرائن سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کی درباری زندگی پر زوال آیا تو رام پور میں شعر وسخن کی محفل جمی۔ خاص کر نواب یوسف علی خاں اور ان کے جانشین نواب کلب علی خاں نے رام پور کو ایک بڑا علمی اور تہذیبی مرکز بنا دیا لیکن شروع میں داغؔ کو وہاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
یوں تو داغؔ رامپور برابر آتے جاتے رہے لیکن انہیں وہاں باقاعدہ ملازمت ۱۸۶۶ء میں ملی اور وہ بھی داروغۂ اصطبل کی حیثیت سے حالانکہ وہاں شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ۱۸۶۵ء میں وہ نواب کلب علی خاں کی تخت نشینی کے موقع پر نظم کہہ چکے تھے اور بعض شاعروں میں غزلیں سنا کر داد بھی وصول کر چکے تھے۔ چنانچہ ان کے خاص شاگرد احسنؔ مارہروی کہتے ہیں کہ رام پور میں پہلی غزل انہوں نے صاحبزادہ محمد رضا خاں کے یہاں ایک مشاعرے میں پڑھی جس کا مطلع مشہور مطلع تھا،
بھولے بھٹکے جو ترے گھر میں چلے آتے ہیں
اپنی تقدیر کے چکر میں چلے آتے ہیں
رام پور سے داغؔ کا تعلق کئی حیثیتیں رکھتا ہے۔ لالہ سری رام نے خمخانۂ جاوید میں لکھا ہے کہ وہ تقریباً چالیس سال رام پور میں رہے اور احسن مارہروی نے چالیس پینتالیس بتایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں وہ ساری مدت شامل کر لی گئی ہے جب انہوں نے بچپن ہی میں رام پور آنا جانا شروع کیا ورنہ وہ باقاعدہ زیادہ سے زیادہ بیس سال رام پور میں رہے اور اس دوران میں بھی تھوڑے تھوڑے دنوں کے لئے اِدھر اُدھر جاتے رہے۔ کبھی دہلی گئے کبھی لکھنؤ۔ پٹنہ اور کلکتہ سے یہ سلسلہ ۱۸۸۸ء تک جاری رہا، جب کہ وہ حیدرآباد چلے گئے اور وہاں تقریباً سترہ سال تک عزت اور وقار کی زندگی بسر کرنے کے بعد اپنی شہرت کے بام عروج پر پہنچ کر انتقال کیا۔
داغؔ اس حیثیت سے بڑے خوش قسمت تھے کہ جب قلعہ معلیٰ سے نکلے تو انہیں دربار کی کم وبیش ویسی ہی فضا رام پور میں مل گئی۔ نواب کلب علی خاں نے انہیں ایسا آرام پہنچایا کہ رام پور ان کے لئے واقعی دارالسرور بن گیا۔ ایک طرف نواب کی مصاحبت دوسری طرف شعرا میں عزت، عوام میں قدردانی اور تیسری طرف زندگی کی وہ چہل پہل جس سے ان کے مزاج کو مناسبت تھی۔ ان کے لئے یہ ساری باتیں رام پور میں یکجا ہو گئی تھیں۔
نواب کلب علی خاں نے تخت نشین ہوتے ہی ’’بے نظیر‘‘ کا مشہور میلہ شروع کیا جس کی رونق اور چہل پہل، رنگینی اور جشن آرائی دور دورسے صاحبان کمال کو کھینچ لاتی تھی۔ رام پور سے وابستہ بہت سے شاعروں نے اس میلے پر نظمیں لکھی ہیں۔ لیکن داغؔ کے لیے یہ میلہ ایک تفریح گاہ سے بڑھ کر آفت جان بن گیا۔ اسی میلے میں انہیں منی بائی حجاب کلکتہ کی مشہور گانے والی اور شاعرہ سے تقریباً پچاس سال کی عمرمیں عشق ہوا اور مرتے دم تک یہ دکھ ان کے ساتھ رہا۔ یہاں اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا ہے کہ یہ زبردست چوٹ انہوں نے رام پور ہی میں کھائی جس کی یادگار ان کی مشہور مثنوی فریاد داغؔ ہے۔ انہیں کے اشعار میں اس کا حال سنئے،
آ گیا بے نظیر کا میلہ
دل پابند وضع کھل کھیلا
آفتِ جان ناتواں دیکھی
یک بیک مرگِ ناگہاں دیکھی
جلوہ دیکھا جوحور طلعت کا
سامنا ہو گیا قیامت کا
دیکھ کر اس پری شمائل کو
رہ گیا تھام تھام کر دل کو
دل کو میں ڈھونڈتا رہا نہ ملا
آنکھ ملتے ہی پھر پتا نہ ملا
رنگ چہرے سے اڑ گیا کوسوں
دل سے میں مجھ سے دل جدا کوسوں
جب یہ افتاد پڑی تو رام پور دارالسرور ان کے لئے جہنم بن گیا اور حجاب سے ملنے کی آرزو انہیں لکھنؤ، پٹنہ، عظیم آباد اور کلکتہ لے گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی شہر تھا تو کلکتہ، جہاں ان کی جان بستی تھی۔ دہلی نے انہیں پیدا کیا، جوان بنایا اور شاعری سکھائی، وہ زبان دی جس پر انہیں بجا طور پر ناز تھا۔ رام پور نے انہیں سہارا دے کر زندگی کے جھمیلوں سے بچا لیا اور حیدرآباد نے انہیں وہ عزت بخشی جو کسی شاعر کو آسانی سے نصیب نہیں ہوتی لیکن کلکتہ جہاں وہ صرف ایک بار گئے، ان کی تمناؤں اور خوابوں کا مرکز بن گیا۔ بہرحال یہ زندگی کا خوش گوار حادثہ رام پور ہی میں پیش آیا جہاں کلب علی خاں انہیں ہر طرح کا آرام اور اعزاز بخش رہے تھے۔
اس زمانے میں رام پور میں بہت سے اہم شعراء یکجا ہو گئے تھے۔ جیسے میرؔ، امیرؔ، جلالؔ، منیرؔ شکوہ آبادی، جانؔ صاحب، رساؔ اور ذکیؔ وغیرہ۔ ان کے مقابلے میں داغؔ کی شاعری چمکی اور امتیازی خصوصیات پیدا کرکے منفرد ہو گئی۔ خواص اور عوام دونوں ان کے گرویدہ تھے۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے ہی عام ہو جاتی تھی اور لوگ سڑکوں پر گاتے پھرتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مصطفیٰ آباد یعنی رام پور میں یہ شہرت حاصل نہ ہو گئی ہوتی تو استاد السلطان بن کر حیدرآباد نہ جاتے۔ ان کی جو قدردانی رام پور میں ہوئی تھی خود انہیں اس کا احساس تھا چنانچہ کہتے ہیں،
رئیس مصطفےؔ آباد کے نوکر ہوئے جب سے
کہیں کیا داغؔ ہم، آرام ہم نے کس قدر پایا
لیکن جب ۱۸۸۷ء میں نواب کلب علی خاں خلد آشیاں ہو گئے تو کچھ دنوں کے لئے داغؔ مستقبل سے مایوس ہو گئے،
نواب نے کی جو قدردانی میری
اے داغؔ گزر گئی جوانی میری
لیکن یہ خبر نہ تھی کہ وقتِ پیری
مرمر کے کٹے گی زندگانی میری
چنانچہ یہ کہہ کر مصطفے ٰآباد رام پور سے رخصت ہوئے،
رہے کیا مصطفےؔ آبادمیں داغؔ
وہ سارے لطف تھے خلد آشیاں تک
اور پھر حیدرآباد پہنچ کر بھی رام پور کو یاد کرتے رہے۔ ایک غزل میں یہ دو اشعار ملتے ہیں،
یاد آتے ہیں وہ اشخاص مصاحب منزل
دو گھڑی جلسہ وہ احباب کا شامل اپنا
نہیں اکثر کا پتہ اور جو کچھ باقی ہیں
ان سے ملنے کو تڑپتا ہے بہت دل اپنا
کہنے کو تو استادی کا مرتبہ دہلی ہی میں حاصل ہو گیا تھا جب ان کی عمر ابھی پچاس سال کی تھی لیکن پختگی اور قادرالکلامی کی دولت رام پور نے عطا کی، جہاں امیرؔ مینائی، منیرؔ شکوہ آباد اور جلالؔ لکھنوی جیسے زبردست شعرا سے بار بار ٹکرا کر وہ مستند استاد بن گئے۔ اس طرح گو ان کا شہر صرف رام پور نہیں ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ رام پور کی دستگیری ہی نے انہیں داغؔ بنا کر چمکایا۔ اس لئے یہ شہر داغؔ کے نام کے ساتھ یا د آتا رہےگا۔