سائیکل
اک روز جا رہے تھے کہیں سائیکل سے ہم
پہنچے جو ایک موڑ پہ نازل ہوا ستم
پیڈل سے سائیکل کے جو پاؤں اکھڑ گئے
ہم جا کے ایک شوخ حسینہ سے لڑ گئے
سنبھلی جو وہ تو ہتھے سے فوراً اکھڑ گئی
گویا ہوئی تو جیسے ہواؤں سے لڑ گئی
کہنے لگی کہ اندھے ہیں آتا نہیں نظر
یہ حرکتیں جناب کی یہ ریش معتبر
پھرتے ہیں کیا شریفوں کی صورت بنا کے آپ
یوں عورتوں پہ گرتے ہیں داڑھی رکھا کے آپ
ہم نے کہا کہ تھوک دو غصے کو نازنیں
سائیکل لڑی ہے تم سے یہ داڑھی لڑی نہیں
داڑھی کا نام لے کے ہمیں کیوں ہو ٹوکتی
داڑھی کوئی بریک ہے جو سائیکل کو روکتی