وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کردی

تئیس مئی 2022 کو وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی)  کو  ایک سرکلر بھیجا۔ سرکلر میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت بجٹ 2022-2023 میں  اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے لیے گرانٹ تیس ارب  روپے تک رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔کمیشن اسی اعتبار سے اپنی بجٹ سٹیٹمنٹ تیار کرے۔ سرکلر میں یہ بھی درج تھا کہ ایچ ای سی کا رواں مالی سال 2021-2022 کا بجٹ پینسٹھ ارب  پچیس کروڑروپے مختص کیا گیا تھا۔

    اس سرکلر کا سیدھا سیدھا مطلب تھا کہ وفاقی حکومت اعلیٰ تعلیم کے کمیشن  کا بجٹ پچاس فیصد سے زائد کم کرنا چاہتی ہے۔ یہ جامعات کے اساتذہ،طلبہ، انتظامیہ سمیت ہر ذی شعور  شہری کے لیے ایک "تعلیمی خودکش حملہ" تھا۔یہ مراسلہ وفاقی وزات خزانہ کی طرف سے جاری کیا گیا۔

کیا تعلیم ہماری ترجیح نہیں ہے؟

            المیے کی بات یہ ہے کہ آج پانچ روز گزر گئے، نہ تو  اس بات نے نیوز چینلز کے پرائم ٹائم میں جگہ پائی اور نہ ہی اس پر کوئی بحث مباحثہ ہوا۔ کسی نے موجودہ حکومت سے نہیں   پوچھا کہ ایسی کیا قیامت آ گئی یا کون سی  معاشی ایمرجنسی نافذ ہو گئی کہ  آپ ایک ماہ کی پیٹرول پر سبسڈی کے لیے اسی ارب روپے تو دینے کے لیے تیار تھے لیکن اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کو اتنے پیسے پورے سال کے لیے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پہلے ہی  ہمارے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کا بجٹ ہمارے کل بجٹ کا ایک فیصد بھی نہیں، آپ  اس کو بھی آدھا کرنے پر تلے ہیں۔ آخر آپ ہوش میں تو   ہیں؟

قصور وار کون ہے؟

            میرا خیال ہے کہ حکومت کی اس سوچ پرقصور وار حکومت سے کہیں بڑھ کر میڈیا اور ہم عوام ہیں۔  کیونکہ ہمارے نزدیک اس اہم موضوع سے کہیں بڑھ کر اہم سیاسی ٹوپی ڈرامے ہیں۔ اسی کے لیے ہم  اپنے صبح شام وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں دلچسپی یہ ہے کہ  کیا عمران خان کا دھرنا کامیاب ہوگا یا نہیں؟ ہمیں دلچسپی ہے کہ کہ کیا شہباز حکومت انتخابات کا اعلان کرے گی یا نہیں؟ ہماری دلچسپی یہ نہیں ہے کہ آخر ہمارا مستقبل پھلے پھولے گا یا نہیں۔ اگر اس بات میں ہمیں دلچسپی ہوتی تو ضرور ہمارےٹی وی چیخ چیخ کر حکومت سے جواب طلبی کر رہے ہوتے۔ 

ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتی کی وجہ کیا ہے؟

            ایسا نہیں ہے کہ میں سمجھ رہا ہوں کہ یہ حکومت  غدار ہے یا  قوم کا بھلا ہی نہیں  چاہتی جو ایسا قدم اٹھا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور بات ہو۔  ہو سکتا ہے حکومت  موجودہ اعلیٰ تعلیم کے کمیشن سے ہٹ کر پیسے  کسی اور طرح  اعلیٰ تعلیم پر خرچ کرناچاہتی ہو۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کی صورت حال بھی تو حوصلہ افزا نہیں۔ اس کے بھی کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔  لیکن یہ بات تو تب ہی سامنے آتی جب حکومت سے پوچھا جاتا اور ہمارے ٹی وی چینل اس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے۔ 

            بحر کیف منگل کو کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے مشہور اخبار دی نیوز  کو یہ ضرور بتایا کہ اتنی کم رقم کے باعث سرکاری جامعات کو گرانٹس نہیں دے پائیں گے۔ ان کے مطابق یہ بجٹ تو اس کے لیے بھی کافی نہیں کہ اس کے ذریعے کمیشن کے معاملات  کو موجودہ جاری تحقیقات کو ساتھ ساتھ  چلایا جا سکے۔

ایچ ای سی کا بجٹ کتنا ہے؟

            اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 150  سرکاری جامعات  ملک بھر میں کام کر رہی ہیں۔ کمیشن اڑتیس مختلف  تحقیقی اداروں کی مالی معاونت کرتا ہے۔  اس شدید بجٹ کٹ سے سب تل پٹ ہوجائے گا۔

            وفاقی حکومت کی جانب سے کمیشن  کے ماضی قریب کے بجٹ کو دیکھا جائے تو2017-2018 میں 63.1 ارب روپ دیا گیا، جبکہ 2018-2019 میں 64.1, 2019-2020 میں 64  اور  2020-2021 میں بھی تقریباً اس کے لگ بگ ہی رہا۔

            اعلیٰ تعلیم کے کمیشن نے سو ارب سے کچھ زائد رقم وفاقی حکومت سے چاہی تھی۔ کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اس کو پورا کرنے سے کیوں قاصر ہے۔ جبکہ نظر آ رہا ہے کہ پیٹرول کی یہ ڈیڑھ ماہ کی سبسڈی بھی نہیں۔ اسی حکومت نے یہ سبسڈی پینتالیس دن تو برداشت کر لی لیکن کمیشن کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ پاکستان کی افرادی قوت کے جو حالات ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 کی افرادی قوت کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 38 فیصد ممالک میں شامل ہے جہاں قحط رجال موجود ہے۔ اسی رپورٹ میں جب پاکستان  کی افرادی قوت کے معیار کی رینکنگ کی گئی تو  پاکستان  130 ممالک میں  آخری دس میں شامل ہے۔    اسی غیر معیاری افرادی قوت کی وجہ سے پاکستان اپنی صنعت کو بھی  دوسرے ممالک کے مد مقابل نہیں لا پاتا۔ آج جب دنیا تیزی سےنالج اکانومی کی طرف بڑھ رہی ہے تو بہت ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی افرادی قوت کو اس کے حوالے سے تربیت دے۔ تاکہ پاکستان کی عوام کی معاشی حالت سدھاری جا سکے۔  اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائی جائیں جائیں اور حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھائے۔ نہیں تو گنگا تو الٹی بہے گی ہی ، راوی  چین کبھی نہیں  لکھے گا۔

حکومت کا یوٹرن

تازہ اطلاع ہے کہ حکومت نے ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتی کے فیصلے سے یوٹرن لے لیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے گزشتہ شب اپنے ایک ٹویٹ میں عندیہ دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایچ ای سی کے بجٹ میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرنے جارہی ہے۔ انھوں نے وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ مراسلے کومضحکہ خیز قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں تمام وائس چانسلرز اور شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ  ہم ایچ ای سی کے فنڈز کا تحفظ کریں گے۔

 

امید کی جاتی ہے کہ حکومت تعلیم کے شعبے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں کٹوتی سے باز رہے گی بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی۔

 

متعلقہ عنوانات