کلچر کا مسئلہ
پچھلے بیس برس میں کلچر کے مسئلہ پر ہمارے ہاں بہت سے اصحاب نے اظہارخیال کیا ہے اورکبھی کبھی تونوبت تلخ وترش تبادلہ خیالات تک بھی جاپہنچی ہے۔ لیکن تاحال کلچر اوراس کے مقتضیات کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں، جذباتیت اپنے عروج پر ہے اور ’’کیاہے؟‘‘ کے بجائے کیا ہونا چاہئے؟ نے مسئلہ کوالجھا کر رکھ دیا ہے۔ میرے لیے یہ دعویٰ کرنا تو ممکن نہیں کہ میں اپنے اس مضمون میں ان الجھنوں کوختم کرسکوں گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر قسمت نے یاوری کی توشایدکلچر بالخصوص پاکستانی کلچر کا جائزہ لینے کے لیے کچھ زمین ہموار ہوجائے۔ہمارے ہاں جب بھی کوئی صاحب کلچر کے نقوش کواجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں تویہ دیکھنے کے بجائے کہ آج کے پاکستانی کلچر کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں، وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستانی کلچر کے اجزائے ترکیبی کیا ہونے چاہئیں؟ ان کا استدلال ایک بڑی حد تک صاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان چنداعلیٰ اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس لیے اس کا کلچر بھی ان اقدار کا مظرچ ہونا چاہئے۔ اصولی طورپر یہ بات بالکل صحیح ہے۔ بحیثیت مسلمان ہر پاکستانی کی یہ آرزو ہے کہ پاکستان کا کلچر پاکستانی مسلمانوں کے آدرش کے عین مطابق ہو، اس میں اسلام کی اعلیٰ اقدار کی فراوانی ہو اور یہ جملہ خارجی اثرات کوشکست دے کر اس عہد کی ہوبہو تصویر بن جائے جس میں اسلامی اقدار معاشرے پر پوری طرح مسلط تھیں اورنیکی، مساوات اور توحید کا بول بالا تھا۔مگرسوال یہ ہے کہ کیا آج کا پاکستانی کلچر اس آدرش کے مطابق ہے؟ بعض لوگ جو سہل پسندی کے خوگر ہیں، لیبل کی تبدیلی کو ماہیئت کی تبدیلی قرار دے کر خوش ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ ایسا کرنا حقیقت پسندی کے منافی ہے۔ اس لیے کیوں نہ سب سے پہلے ’’کیا ہے؟‘‘ اور ’’کیسے ہے؟‘‘ کا جواب تلاش کیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں ’’کیا ہونا چاہے؟‘‘ کاجواب مرتب ہوسکے۔اوپر میں نے متعدد بار لفظ کلچر استعمال کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ میرے ذہن میں کلچر کا ایک خاص مفہوم ہے اور ضروری نہیں کہ قاری کے ذہن میں یہی مفہوم موجودہو۔ اس لیے اگر کلچر کے مفہوم کی وضاحت کے بغیرہی بحث ہوتی رہی تو عین ممکن ہے کہ قاری اور مضمون نگار الگ الگ ذہنی سطحوں پر چلتے رہیں اور بحث کا کوئی نتیجہ ہی برآمد نہ ہو۔ اس لیے میں بات کی ابتدا کلچر کے اس مفہوم کی وضاحت سے کروں گا جو میرے ذہن نے مرتب کیا ہے۔کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کسی ظریف نے پاکستانی کلچر کے بارے میں یہ فقرہ کسا تھا کہ پاکستان میں کلچر ولچر کوئی نہیں، یہاں تومحض ایگریکلچر ہے۔ بات تفنن طبع کے لیے کہی گئی تھی اوراس لیے اس کا سواگت بھی قہقہوں سے ہوا تھا مگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو ظریف میاں کی اس بات میں کوئی سچائی کا عنصر بھی موجود تھا کیونکہ کلچر کا لغوی مفہوم ہی کھیتی باڑی ہے۔ TO CULTURE کا مطلب ہے زمین کو فصل کے لیے تیار کرنا، اس میں ہل چلانا، جھاڑ جھنکار سے اسے صاف کرنا اور اس میں کھاد ڈال کر اسے زرخیز بنانا، تاکہ اس میں اگنے والی فصل توانا ہو۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ کلچر کا مفہوم محض زمین کی تیاری نہیں۔ زمین توکلچر کا صرف کثیف حصہ ہے، اگرچہ اس کثیف حصے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر اسے خارج کردیا جائے تو کلچر کا نام ونشان ہی باقی نہ رہے۔ دوسرا حصہ کلچر کی پاکیزگی اور ارفع صورت میں سامنے آتا ہے۔عام طور سے لوگ کلچر سے مراد یا تو اس کا ارفع پہلو لیتے ہیں یا کثیف پہلو مگر دونوں صورتوں مںا کلچر کا اصل مفہوم اورمزاج اجاگر نہیں ہوتا۔ میرے ذہن میں کلچر کی علامت وہ سرسبز وشاداب پیڑ ہے جواپنی غذا، زمین اور کھاد ایسی کثیف اشیاء سے حاصل کرتا ہے لیکن جس میں یہی کثیف اور بدبودار عناصر ایک خاص کیمیائی عمل سے گزرکر پھول ایسی نازک اور معطر شے میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ سارے کاسارا پیڑ، اپنی غلیظ خوراک اور زمین سے چمٹی ہوئی جڑوں سے لے کر رنگین اور عطر بیز پھولوں تک کلچر کا علامت ہے۔پیڑ کی اس علامت کواگرپورے معاشرے پرمنطبق کردیا جائے توپھر سوال پیدا ہوگا کہ معاشرے کا پیڑ، زمین اور کھاد کے جن کثیف عناصر سے توانائی کشید کرتا ہے وہ کیا ہیں۔ نیز اس پیڑ پر جو پھول نمودار ہوتے ہیں ان کی نوعیت کیا ہے؟ کسی معاشرے کے کلچر کوسمجھنے کے لیے چند ثقافتی تقاریب میں شرکت کرلےنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے توکلچر کے کثیف اور ارفع دونوں رخوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ دیکھا جائے کہ کسی معاشرے کے کلچر کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ نیز یہ تمام اجزاء کس عمل سے گزر کر اپنی تکمیل کوپہنچتے ہیں۔ میرے نزدیک کلچر کے کثیف عناصر معاشرے کی خارجی سطح یعنی اس کے چھلکے پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں طرز بودوباش، رسوم، خوشی اور غم کی تقاریب، موسم کے ساتھ ہم آہنگی کے مواقع یعنی تہوار، کاروباری زبان، کامرانی یاردبلا کے لئے اقدامات، اردگرد کے ماحول سے اخذ واکتساب کا رجحان اور اسی قسم کی لاتعداد دوسری صفات شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان تمام ’’صفات‘‘ کی حیثیت اس زمین کی سی ہے جس سے معاشرے کا پیڑ توانائی کشید کرتا ہے۔ان تمام عناصر کو بجنسہٖ پیش کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے کسی کلچر کا مرقع پیش کردیا کیونکہ فی الحقیقت یہ تمام عناصر تو محض وہ ’’کچامواد‘‘ ہے جوکلچر کی تعمیر میں صرف ہوتا ہے۔ اپنی کثیف حیثیت میں ان تمام عناصر میں جذبے کی گھٹن اورگراں باری وجود میں آتی ہے۔ یہ گویا معاشرے کا جسم ہے جس میں ’روح‘ موجود ہی نہیں۔ جومعاشرہ جسم کے اس مرحلے پر رک چکا ہو، اس میں کلچر کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں یہ کثیف عناصر موجود ہی نہ ہوں وہ ایک خلا میں معلق ہوتا ہے اور اس میں کلچر پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ کہ کلچر کا عمل درخت کی نمو اور پھیلاؤ کا عمل ہے اوریہ عمل زمین کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جس معاشرے میں کلچر کے اجزاء ترکیبی یعنی عناصر کثیف موجود ہوں، وہ کچھ عرصے کے بعد ثقافتی اعتبار سے فعال ہوجاتا ہے اوراس کے فنون لطیفہ میں معاشرے کی وہ روح سمٹ آتی ہے جسے اس معاشرے کے کلچر کا بہترین ثمرقرار دینا چاہئے۔ایک اورمثال سے بات شاید مزید واضح ہوسکے۔ جب ہمارے دانت روٹی کے ایک لقمے کواچھی طرح چباکر نگلنے کے لیے تیار کردیتے ہیں تواس کی صورت کو دیکھنے کی مشکل ہی سے کسی کو تاب ہوتی ہے لیکن یہی لقمہ آنتوں کے عمل سے گزر کر بالآخر صاف ستھرے خون کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے لیے غلاظت سے رفعت تک کا یہ سارا عمل ضروری ہے۔ یہی حال کلچر کا ہے کہ وہ زمین سے اپنی ابتدا کرتا ہے اورمعاشرے کے ایک خاص نفسیاتی عمل سے گزرکر فنون لطیفہ میں ڈھل جاتا ہے اورہم کلچر کے ثمر سے آشنا ہوجاتے ہیں۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ معاشرے کے اس خاص ’’نفسیاتی عمل‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟ معاشرے کے ارتقاء میں پہلا درجہ وہ ہے کہ جب معاشرے کا اثاثہ رسوم، پوجا کے مظاہر، تہواروں، تحفظ ذات اور اکتساب لذت کے سوا اورکچھ نہیں ہوتا۔ گویا مزاجاً یہ اثاثہ مادی نوعیت کا ہوتا ہے۔ پھر اچانک اس پر ایک نئے اور بدیسی معاشرے کی یلغار ہوتی ہے۔ یہ حملہ جسمانی سطح پر بھی ہوسکتا ہے اورذہنی سطح پر بھی۔ جسمانی سطح کے حملوں کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔ ذہنی حملے کے ضمن میں چین اورجاپان میں بدھ مت کا فروغ، یورپ میں یونانی افکار کا وہ تسلط ہے جسے احیا ء العلوم کا نام ملا اور جدید دور میں مشرق پر مغربی تہذیب کی یلغار کو بطورمثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ معاشرہ جوبدیسی یلغار کی زد میں آتا ہے، اپنے آپ میں سمٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔عام زندگی میں جب جبلی میلانات، اسلافی رجحانات کی زد میں آتے ہیں تو اپنے اخراج کا کوئی راستہ نہ پاکر سمٹنے اور سائکی (PSYCHE) کے اس دیار میں چلے جاتے ہیں جسے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کا نام ملا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کوئی معاشرہ کسی قوی تر معاشرے کی یلغار سے دوچارہوتا ہے تواپنے آپ میں سمٹ جاتا ہے لیکن یہ مر نہیں جاتا۔ بعینہٖ جیسے جبلی میلانات دب سکتے ہیں مر نہیں سکتے۔ اس کے بعد HYDERNATIONکا ایک وقفہ آتا ہے جس کے خاتمے پر وہ تمام کثیف عناصر جوپرانے معاشرے جزو بدن تھے، فنون لطیفہ کی صورت میں ابل پڑتے ہیں۔ بالخصوص ادب میں اساطیر، روایات اور قدیم طرززندگی کے جملہ مظاہر ایک ارفع تر روپ میں ڈھل کر ظاہر ہوتے ہیں۔مختصراً کسی معاشرے کے عام رجحانات صرف اسی صورت میں کلچر کا حصہ بنتے ہیں، جب وہ وقت کے ایک وسیع کینوس پر بدیسی یلغار کی زد میں آنے کے بعد اندر کی طرف مڑتے ہیں اور وہاں سے فنون لطیفہ کی صورت میں دوبارہ باہر آتے ہیں۔ اسی چیز کو معاشرے کے ایک خاص نفسیاتی عمل کا نام دینا چاہئے اوراسے بارور ہونے کے لیے وقت کے مراحل طے کرنے کی اجازت بھی ملنی چاہئے۔ جو لوگ کسی حکم کے ذریعے کلچر کے ایک خاص پیکر کو معاشرے میں رائج کرنے کے حق میں ہیں، ان کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کلچر کی نمو کا عمل تو مزاجاً لاشعوری، وقت کے وسیع کینوس کے تابع اورمعاشرے کے ایک خاص نفسیاتی عمل کی پیداوار ہے، اسے کسی جادو کی چھڑی کی مدد سے پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ان چند معروضات کی روشنی میں پاکستانی کلچر کوسمجھنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ دیکھنا ممکن ہے کہ آج کے پاکستانی کلچر کے اجزاء ترکیبی کیا ہیں اور یہ کس خارجی دباؤ کے تحت اجتماعی لاشعور کا حصہ بنے ہیں، نیز یہ کس طرح فنون لطیفہ میں اساطیر، روایات، عقائد اور ARCHETYPAL IMAGESکی صورت میں اپنا اظہار کر رہے ہیں۔پاکستانی کلچر کا کچا مواد وہی ہے جو آج سے تقریباً پانچ چھ ہزار برس قبل وادی سندھ کی تہذیب میں موجود تھا۔ وہ لوگ جن کا موقف یہ ہے کہ آج کی پاکستانی تہذیب کا وادی سندھ یعنی موہن جوڈرو اور ہڑپہ کی تہذیب سے کوئی علاقہ نہیں، دراصل تاریخ اور تہذیب کے اچھے طالب علم نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے اذہان میں یہ غلط خیال جڑیں پکڑ چکا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب، ہندو تہذیب تھی۔ یہ خیال تاریخ اور علم آثار الصنادید کا مطالعہ نہ کرنے کے باعث ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب آریاؤں کی تہذیب سے قطعاً مختلف تھی اور بقول سرمارٹیمر ویلرؔ اس وادی میں تہذیب کا بیج سمیریا (موجودہ عراق سے) آیا تھا۔ ابھی موہن جوڈرو کی نچلی سطح کی کھدائی نہیں ہوسکی، ورنہ شاید یہ بھی ثابت ہوجائے کہ وادی سندھ کے لوگ عراق سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ اس اعتبار سے یہ قیاس قطعاً غیراغلب نہیں کہ وادیٔ سندھ کے لوگ سامی النسل 1تھے۔بہرکیف عربی تہذیب سے متاثر وادیٔ سندھ کی اس تہذیب کے شواہد آج کے پاکستانی معاشرے میں صاف نظر آتے ہیں۔ مثلاً موہن جوڈرو کی تختیوں پر جس بیل گاڑی کی تصویرکندہ ہے، وہ نہایت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر چل رہی ہے، پھر ان تختیوں پر جس باریش آدمی کی شبیہ نظرآتی ہے، وہ آج بھی ہمارے کھیتوں میں ہل چلاتا اور الغوزہ یا بانسری بجاتا مل جاتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ سندھ میں تواس کی وضع قطع حتیٰ کہ اس کی داڑھی کی تراش خراش میں بھی کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یہی حال اس کے لباس کا ہے، جس میں تہہ بند (تہمد) کو موہن جوڈرو، ہڑپہ کے زمانے میں بھی اہمیت حاصل تھی اورجو آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی سب سے زیادہ مروج لباس ہے۔ہمارے بیشتر مفکرین کلچر کی تلاش شہروں میں کرتے ہیں۔ حالانکہ شہر توثقافتی اعتبار سے (NOMAN’S LAND) ہے جہاں دیسی کلچر سداباہر کی ثقافتوں سے دست وگریباں رہتا ہے اور بادی النظر میں یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ان کے ہاتھوں پٹ چکا ہو۔ چنانچہ جب وہ پاکستانی شہروں میں پتلون یا شلوار کا تسلط دیکھتے ہیں تو اسی کو اپنی ثقافت کا ایک جز قرار دے لےتچ ہیں۔ حالانکہ اصل کلچر تو دیہات کی پیداوار ہے، جہاں آج بھی پتلون اور شلوار کا نہیں بلکہ تہہ بند کا راج ہے۔ وہ لوگ جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے ثقافتی بعد کو نمایاں کرنے میں اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ لباس کی سطح پر ان دونوں صوبوں میں کس قدر مماثلت موجود ہے۔ پھر لباس صرف سترپوشی کی ایک صورت نہیں بلکہ معاشرے کے خاص مزاج اور انداز نظر کی بھی غمازی کرتا ہے اور جب اس سطح پر مماثلت دریافت ہوجائے تواسے بہت سی دوسری ذہنی اور ثقافتی مماثلتوں کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئے۔اس ضمن میں ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پتلون اور پائجامہ، شلوار وغیرہ خانہ بدوش اور آوارہ گرد قبائل کے کلچر کی نشان دہی کرتے ہیں، جبکہ تہہ بند زرعی معاشرے سے متعلق ہے۔ آسمان کے زیر سایہ سفر کرنے والا انسان ایک سپاہی کی طرح ہے جسے ہر ہر قدم پر نت نئی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ اپنے لیے ایک ایسا لباس منتخب کرتا ہے جو تیزی سے حرکت کرنے میں مزاحم نہ ہو۔ پتلون، شلوار اور پائجامہ اس کی کسی ایسی ہی ضرورت کی پیداوار ہیں لیکن تہہ بند ایک ٹھہرے ہوئے زرعی معاشرے کی تخلیق ہے جہاں حرکت، فطرت کی آہستہ روی سے ہم آہنگ ہے۔چونکہ پاکستانی کلچر مزاجاً زرعی ہے، اس لیے ہمارے ہاں تہہ بند ہی اصل لباس ہے اوریہی لباس موہن جوڈرو اور ہڑپہ کی تہذیب میں بھی رائج تھا۔ اس تہذیب کے شہروں میں گلیوں کا نظام بھی آج کے بیشتر پرانی وضع کے دیہات اور شہروں میں رائج ہے۔ گندم، جو وغیرہ کو اگانے اور اسے محفوظ کرنے کے طریق وہی ہیں۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اوراپنے ہل کو دوبیلوں کی مدد سے چلاتے تھے۔ اس ہل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اورنہ بیلوں کی تعدادمیں ہی کمی بیشی ہوئی ہے۔ابھی تک وادی سندھ کی زبان کا رسم الخط پڑھا نہیں جاسکا اوراس لیے ان لوگوں کے اعتقادات کے بارے میں صرف قیاس آرئی ممکن ہے، تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ زراعت پیشہ تھے۔ گندم اورکپاس اگاتے تھے۔ نہاتے اور الغوزے بجاتے تھے اور ان کے بچے انہی کھلونوں سے کھیلتے تھے جن سے ہمارے آج کے دیہاتی بچے کھیل رہے ہیں۔ ان کے ہاں مٹی کے برتن بنانے اور انہیں استعمال کرنے کا رجحان مسلط تھا جو آج کے پاکستانی دیہات اور شہروں میں موجود ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے مردوں کو جلاتے نہیں تھے بلکہ انہیں قبروں میں دفن کرتے تھے۔ گایوں، بھینسوں سے ان کی وابستگی نہایت مضبوط تھی اور یہ ان کے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔ یوں بھی ان کی زراعت کے لیے بیل اور بھینس کا وجود ناگزیر تھا۔چنانچہ موہن جوڈرو کی تختیوں پر بیل کی ایک نہایت خوبصورت تصویر بھی ملی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاں بیل سے وابستگی نہایت شدید تھی۔ یہی حال بھینس کا تھا کہ بھینس دودھ دیتی ہے اور دودھ ان کی زندگی میں امرت کا درجہ رکھتا تھا۔ (آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی تو یہ امرت ہی کا درجہ رکھتا ہے۔) ان کے ہاں سب سے بڑی قسم ’’دودھ پتر‘‘ کی ہوگی کہ یہ آج بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ بھینس پالنے کا رجحان اس قدر قوی تھا کہ گوجرخان، گوجرہ، گجرات، گجرانوالہ سے لے کر گجرات کا ٹھیاواڑ تک گوالوں کے کلچر کے شواہد آج بھی ملتے ہیں۔ بھینس نے ان کی روایات، اساطیر، شاعری اور لوک کہانیوں میں بھی جگہ بنالی تھی۔ رانجھے اور ہیر کی کہانی سے (جس مں رانجھا بھینسوں کا رکھوالا ہے) سوہنی مہینوال کی داستان تک (مہینوال کا مطلب ہے مہیں یعنی بھینس کا رکھوالا) بھینس کے اس کلچر کے اثرات سرایت کرتے چلے گئے ہیں۔آج بھی ہمارے دیہاتی معاشرے میں محبوب کو ’’ماہی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے جو محبوب کی ’’مہیں‘‘ یعنی بھینس سے وابستگی پر دال ہے۔ بھینسوں سے ہمارے عوام کی وابستگی کا منظرلاہور کی سرکلر روڈ پر دن کے کسی بھی حصے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فی الحقیقت ہمارے کلچر کے اجزائے ترکیبی میں بھینس کا عنصر بڑی اہمیت رکھتا ہے اوراس نے ہمارے عام مزاج پر بھی گہرے اثرات مرتسم کیے ہںق۔کسی معاشرے کے کلچر کا جائزہ لینے کے لیے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ کس جانور سے وابستہ ہے۔ کیونکہ یہ وابستگی محض سطح کی بات نہیں بلکہ ٹوٹم TOTEMکی صورت میں معاشرے کی جڑوں کی نشاندہی کرتی اور معاشرے کے خاص مزاج کو سامنے لاتی ہے۔ مثلاً جس کلچر میں اونٹ اور گھوڑے سے لگاؤ موجود ہو، وہاں کے عوام میں بھی گھوڑے کی سی برق رفتاری اوراونٹ کی سی جانفشانی کے شواہد عام طور سے ملیں گے۔ اسی طرح بھیڑ بکری سے وابستگی خانہ بدوشی کے رجحان کو مہمیز لگاتی ہے اور جو معاشرہ بھیڑ بکری سے وابستہ ہو، بالعموم خانہ بدوشی اختیار کرلیتا ہے۔ بھینس سے وابستگی غنودگی، ٹھہراؤ اور جسم کی سطح پر زندہ رہنے کے عمل کومضبوط بناتی ہے۔بھینس کی سست رفتاری اور بے نیازی توضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے اوراس کی تصدیق ہر وہ موٹرڈرائیور کرسکتا ہے جسے سڑک کے عین درمیان کھڑی ہوئی بھینس کوسامنے پاکر اپنی موٹر کا سوئچ ایک غیرمعین عرصے کے لیے بند کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ بھینس ہے جو غلیظ جوہڑ کو سامنے پاکر بڑے وقار سے اس میں داخل ہوجاتی ہے اور غلاظت میں لت پت ہوکر گھنٹوں بیٹھی اونگھتی رہتی ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب اسی بھینس سے وابستہ تہذیب تھی اور یہی روایت آج کے معاشرے تک بڑھتی چلی آئی ہے۔ میرا خیال ہے باہر سے جو سیاح ہمارے ملک میں وارد ہوتے ہیں وہ پہلی ہی نظر میں ہمارے اس ’وصف خاص‘ کو محسوس کرلیتے ہیں۔وادی سندھ کی تہذیب مزاجاً مادی تھی اور اس لیے اس کے عوام کے اعتقادات بھی زیادہ ترمادی اور جادوکی رسوم پرمشتمل ہوں گے۔ قیاس غالب ہے کہ وہ قبروں کو پوجتے تھے، کالے جادو کی مدد سے دشمن کو فنا کے گھاٹ اتارتے اور محبوب کو رام کرتے تھے۔ ان کی ساری زندگی پر گنڈا تعویذ، ٹونے ٹوٹکے، جنترمنتر چھائے ہوئے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے پاکستانی معاشرے میں وادی سندھ کی تہذیب کے یہ عناصر ہوبہو موجود ہیں۔ قبرپرستی، ٹوناٹوٹکا، گنڈا تعویذ اور اسی وضع کی دوسری رسوم اس قدر عام ہیں کہ عوام ابھی تک اصل زندگی میں اسی روایت کے تابع ہیں، جووادیٔ سندھ کی تہذیب کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچی تھی اور پاکستانی کلچر کے کثیف عناصر وہی ہیں جو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں مروج اور مقبو ل تھے۔مگرسوال یہ ہے کہ یہ کثیف عناصر معاشرے کے کسی ’’نفسیاتی عمل‘‘ سے گزرکر پاکستانی کلچرکا حصہ بنے ہیں؟ نفسیاتی عمل کی یہ داستان بہت طویل ہے۔ میں یہاں صرف چند اشاروں پر ہی اکتفا کروں گا۔ اس داستان کا نقطہ آغاز تو وادیٔ سندھ کی تہذیب ہے، جسے منظرعام پر لانے میں سرماٹیمرویلر نے بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ یہ تہذیب تقریباً دوتین ہزار برس تک اس خطے میں پھلتی پھولتی رہی اور مختلف عناصر کی آمیزش سے (جو ہزارہا برس پر پھیلے ہوئے ہیں) اس کا ایک خاص مزاج متعین ہوگیا۔ پندرہ سوبرس قبل مسیح کے لگ بھگ آریاؤں نے وادیٔ سندھ کے علاقے پر یلغار کی اوراس کے باشندوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کردیا۔ آخرآخر میں آریاؤں کو فتح ہوئی اور آریأوں نے ان پر اپنی تہذیب مسلط کردی۔ لیکن وادیٔ سندھ کی تہذیب فنا نہیں ہوئی بلکہ اس بیرونی دباؤ کے تحت معاشرے کے باطن میں سمٹ کر اجتماعی لاشعور کا حصہ بن گئی۔چنانچہ بعدازاں جب آریاؤں کے ہاں فنون لطیفہ، مذہب، زبان اور دوسرے ثقافتی مظاہر کو فروغ ملا تو ان میں وادیٔ سندھ کے معاشرے کے کثیف عناصر رفعت آشنا ہوکر نہ صرف شامل ہوئے بلکہ فتح کے پرچم بھی لہرانے لگے۔ گیارہویں صدی میں اس مخلوط معاشرے پر مسلمانوں نے حملہ کیا اورسارے برصغیر پر چھا گئے۔ اس خارجی دباؤ کے تحت قدیم کلچر کی کثیف لہریں سمٹ کر اجتماعی لاشعورکا حصہ بن گئیں اورپھر کافی عرصہ کے بعد فنون لطیفہ کے ایک ایسے تازہ ابال کی صورت میں سامنے آئیں جس میں اب سندھی تہذیب کے علاوہ آریائی تہذیب کی آمیزش بھی تھی اور مسلمانوں کا اسلوب زیست بھی اپنی جھلکیاں دکھا رہا تھا۔ کئی سوبرس بعداس برصغیر کومغربی تہذیب کی یلغار کا سامنا ہوا اور حسب سابق واپسی REGRESSIONکے عمل نے خودکودہرایا۔ اس طور کہ اب سندھی، آریائی اوراسلامی تہذیب کا مشترکہ پیکر خارجی دباؤ کی زد میں آیا اوراس نے سمٹ کر خود کو اجتماعی لاشعور میں ضم کردیا۔چنانچہ پچھلے پچاس برس میں فنون لطیفہ کا جوتازہ عروج سامنے آیا ہے اس میں اب قدیم سندھی اورآریائی اثرات کے پہلو بہ پہلو اسلامی تہذیب کے نسبتاً جدید اثرات بھی شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کی یلغار ابھی جاری ہے اور شاید ابھی کافی عرصہ اورجاری رہے۔ اس خارجی دباؤ کے تحت جیسے جیسے ہماری اپنی تہذیب سمٹتی اور سائکی کا حصہ بنتی جائے گی، ہمارے ثقافتی مظاہر میں اس کا زیادہ سے زیادہ رنگ نمایاں ہونے لگے گا۔ ابھی سے اردو ادب میں تلمیحات، اساطیر اور ARCHETYPAL IMAGESحتیٰ کہ تشبیہات و استعارات کے اجزا تک کلچر کے اس ماضی تک پھیلے ہوئے نظرآنے لگے ہیں جو وادیٔ سندھ کی تہذیب کے زمانے میں نمودار ہورہا تھا۔دراصل کلچر ایک ایسا دریا ہے جو سدا اپنے منبع سے سمندرکی طرف بہتا رہتا ہے۔ ہم جس مقام پر بھی اس کے پانی کو چکھیں وہ اپنے منبع سے اس مقام تک کے جملہ ذائقوں کے امتزاج کو ضرور پیش کرے گا یا جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ کلچر ایک پیڑ کے مانند ہے۔ ضرور ہے کہ جب ہم اس کے پھولوں کو چھوئیں گے تودراصل اس کی جڑوں کو چھو رہے ہوں گے۔ اس سے مفر نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں وہ کلچر کس طرح وجود میں آئے جس پر اسلامی اقدار کا غلبہ ہوکہ یہی ہر پاکستانی مسلمان کی عزیز ترین خواہش ہے؟ اس ضمن میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی کلچر میں غالب اسلامی عناصر کا اضافہ فوری طورپر کردیا جائے مگرکلچر کے معاملے میں اس قسم کا ’فوری عمل‘ شاید کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔ اولاً اس لیے کہ کلچر کا عمل لاشعوری ہے، شعوری نہیں۔ ثانیاً یہ اپنے سارے ماضی کو ساتھ لے کر چلتا ہے، بعینہٖ جیسے ہر انسان اپنے اجتماعی لاشعور کو ساتھ لے کر پیداہوتا ہے۔ ثالثاً کلچر کا عمل وقت کے وسیع کینوس پر پھیلا ہوتا ہے اور واپسی (REGRESSION) کے بغیر سامنے آہی نہیں سکتا۔ رابعاً کلچر معاشرے کی کثیف سطح کی کایاکلپ کا نام ہے اور کثیف سطح ایک خاص خطہ زمین، اس کے موسم، نمک، ہوا اورپانی سے متشکل ہوتی ہے۔ توپھر کیا ہو؟میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگرپاکستانی کلچر میں اسلامی اقدار کا نفوذ درکار ہو تو پاکستانی مسلمانوں کوصحیح معنوں میں مسلمان بن کر دکھانا ہوگا۔ اصولی طورپر توہم نے پاکستان اسلامی اقدار کے نفاذ اور فروغ کے لیے حاصل کیا تھا لیکن ہم نے ابھی تک اس ’’نفاذ اور فروغ‘‘ میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے؟ اب ہمارے وطن میں زیادہ تر مسلمان ہی آباد ہیں اور اس کے باوصف چوری، ڈکیتی، اغوا، ملاوٹ، رشوت ستانی، جھوٹ، تعیش، ذخیرہ اندوزی، ریاکاری، قماربازی، سود، چوربازاری اور اسمگلنگ جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے بیشتر مسلمان ہی اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بقول علامہ اقبالؔ ہم ابھی صحیح معنوں میں مسلمان ہی نہیں بن سکے۔ اگر بعض حضرات پاکستانی کلچر پر محض ’’اسلامی‘‘ کالیبل لگاکر خوش ہونا چاہتے ہیں تویہ الگ بات ہے، ورنہ اگر آرزو یہ ہو کہ پاکستانی کلچر میں اسلامی اقدار کا غالب عنصر ابھرے توپھر ہمیں پہلے اسلامی اقدار کو (جونیکی، عدل اورکشادہ دلی سے عبارت ہیں) اپنانا ہوگا اور وہ بھی محض چند ہفتوں کے لیے نہیں بلکہ صدہا سال کے لیے۔اسی دوران میں جب خارجی دباؤ کے تحت اسلامی اقدارسمٹ کرپاکستانی قوم کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جائیں گی تو ازخود ہمارے کلچر میں ظاہر ہونے لگیں گی۔ کلچر کا طریق کار وہی ہے جو ادب کا ہے۔ دونوں صورتوں میں ریاضت اور ’’جان مارنے‘‘ کی ضرورت ہے اور دونوں صورتوں میں وہی کچھ سامنے آتا ہے جو باطن میں موجود ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی کلچر کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنا مقصود ہو (اوریقیناً مقصود ہے) توپھر بقول بلہے شاہؔ ’’اندر کی کوٹھی‘‘ کو گردوغبار سے پاک صاف کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ’’اندرکی کوٹھی‘‘ کو تواسی حالت میں رہنے دیں اور کوٹھی کے باہر رنگ رنگ کی جھنڈیاں لہراکر صفائی کا اعلان کردیں۔ کلچر کسی ایسے شعوری عمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔حاشیہ(۱) ابوالمحال ندوی صاحب نے اپنے مضمون ’’سندنام کی بستیاں‘‘ مطبوعہ ماہ نو خاص نمبر ۱۹۵۹ء میں لکھا ہے، ’’سند ایک ایسی قوم کا نام تھا جو ایران کے ایران ہونے اورہندوستان کے آریہ ورت ہونے سے پہلے مصر، شام، عرب، ایران و سند میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ لوگ عربوں کے خیال کے مطابق جنوبی عرب میں بسنے والے حضرموت وسبا اور معین اور فتبان کے ہم نسل تھے۔ قدمائے سندھ کے تعلقات عراق عرب کے ساتھ ثابت ہوچکے ہیں۔ اس لیے بیجا نہ ہوگا اگرہم وادیٔ سندھ کی مہروں کواسی زبان میں پڑھنے کی کوشش کریں جسے عرب کا شداد بولتا تھا۔‘‘