پاکستان میں ہونے والی سیاسی کرکٹ اور کرکٹ کی سیاست
کرکٹ ہماری گھٹی میں پڑی ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ گورے جاتے جاتے ہمیں کرکٹ کی گھٹی ضرور دے گئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی المعروف بہ تاج برطانیہ کی عطا کردہ جن عنایات کو ہم نے پون صدی بعد بھی سینے سے لگا رکھا ہے اور آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے ان میں میرے نزدیک پہلے نمبر پر کرکٹ ہے اور دوسرے پر جمہوریت۔(تیسرے اور چوتھے نمبر پر قارئین اپنی سہولت ، پسند یا افتاد طبع کے مطابق کرپشن، بیوروکریسی ، چائے اور میکالے کے نظام تعلیم میں سے کسی کو بھی رکھ سکتے ہیں، ہمیں چنداں اعتراض نہ ہوگا) البتہ پہلے اور دوسرے نمبر کے بارے میں ہم اپنی رائے پر قائم ہیں، چاہے آپ کتنے ہی دلائل جمہوریت و سیاست کی فوقیت کے دے لیجیے، ہم نہ مانیں گے۔
یہ ضرور مانتے ہیں کہ جمہوریت بھی بہت اہم عنایت ہے گورا صاحب کی، اسی لیے اس کا شکریہ ہمارے قومی شاعر نے بھی ادا کرنا ضروری سمجھا تھا ۔ انہوں نے الیکشن ، ممبری ، کونسل، صدارت، سب ہی کو بقائے جمہوریت کے لیے ضروری سمجھا تھا ، تب ہی تو ہم ان کی اس سب سے اہم ہدایت پر آج تک عمل پیرا ہیں، دیگر ہدایتیں ہم نے اگلی نسلوں کے لیے اٹھا رکھی ہیں۔ باقی رہی بات انڈوں کی ، تو ان کا ذکر علامہ نے بھی اپنے زمانے میں کیا تھا، سرکار انگلیشیہ کی درآمد کردہ تہذیب کے حوالے سے اور اب آمنہ مفتی نےبھی، بانداز دگر و بہ مقاصد دیگراں، کیا ہے ، اور ہمارے نزدیک غلط کیا ہے۔ ہمارا ان سے نظری و فکری اختلاف ہے۔ ہم دیسی لوگ ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصلی دیسی انڈوں کا رنگ چٹا سفید نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ خاکی رنگت کے ہوتے ہیں۔چٹے سفید، سرف سے دھلے، کیمیائی کھادوں سے تیار شدہ بیضوی کرے، ہمارے نزدیک تو اس جوہراور وظیفے سے ہی تہی دامن ہیں جس کی وجہ سے انڈہ، انڈہ کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ محترمہ سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ انڈوں سے متعلق اپنے مشاہدات و تجربات پر نظر ثانی کریں۔ باقی رہی بات سڑاند کی ، تو خاک سے، خاکستری رنگ و بوُسے، خاک پوشوں اور خاک نشینوں سے جو سڑاند محترمہ اور ان کے قبیل کے دیگر عرش نشینوں کو آتی ہے ، اس کی تکنیکی و نفسیاتی و سیاسی وجوہات پر بات پھر کبھی کریں گے، ذرا تفصیل سے۔
خیر بات ہورہی تھی کرکٹ اور جمہوریت کی۔ ہماری کرکٹ میں جمہوریت ہو نہ ہو، جمہوریت اور اس کی بقا و افزائش کے لیے ہونے والی سیاست میں کرکٹ پوری طرح ، بلکہ بری طرح دخیل ہے۔ ابھی حال ہی میں آپ نے اس کا بھرپور مظاہرہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے ضرور دیکھا ہوگا۔ ایک طرف حکومت آخری بال تک کھیلنے کا تہیہ کیے ہوئے تھی اور دوسری طرف اپوزیشن خان صاحب کو’ ہٹ وکٹ‘ کرنے چکر میں رہی۔ خان صاحب اپنے کئی مشکوک اتحادیوں کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے سے باز آجانے کا کہہ رہے تھے تو دوسری طرف اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ اب کی بار امپائر نیوٹرل ہیں۔ ایک معمہ رہا، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، سیاست ہورہی ہے یا کرکٹ میچ۔
اس سیاسی کھینچا تانی میں ہمیں اپنے بچپن کی کرکٹ اور اس میں پڑنے والی ’روند‘ خوب یاد آئی۔ ’روند‘ یا ’روندی‘ پنجابی زبان کی ایسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن کا مطلب بقول ہمارے معروف شاعر خالد مسعود کے ’چوَل ‘ کی طرح ، سمجھایا نہیں جاسکتا،صرف دکھایا جاسکتا ہے۔’روندی‘ ماری جاتی ہے، پیٹی جاتی ہے اور ڈالی جاتی ہے، اپنے مزاج اور ظرف کے مطابق۔ قارئین اپنی سہولت کے لیے اسے دھاندلی کہہ سکتے ہیں لیکن دھاندلی میں وہ شدت نہیں جو ’روندی ‘ میں ہے ۔یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کسی پنجابی گالی کو نستعلیق اردو میں دے دیا جائے،تلفظ کتنا ہی خوب صورت ہو، تاثیر رہے گی اور نہ ما بعد اثرات رونما ہوں گے۔بہرحال ، کرکٹ اور روندی یا دھاندلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، شاید اسے بنانے والے اور ہمیں عنایت کرنے والے بھی کرکٹ کی اس خوبی سے بخوبی واقف تھے۔
ابتدائے بچپن میں جو کرکٹ گھر کے صحن میں یا گلی میں کھیلی جاتی تھی، اس میں خوب روندی پڑتی تھی۔ دو بھائی صحن کے ایک کونے میں دو اینٹیں رکھ کر وکٹ بنائے باری باری بیٹنگ کرتے تھے۔ ان میں سے ایک گیند کرواتا جسے دوسرا کھیل نہیں پاتا تھا اور وہ وکٹ کے اوپر سے گزر جاتی۔ چونکہ اوپر ہوتا تو کچھ نہیں تھا لہٰذا یہ جانچنا کہ واقعی آؤٹ ہوا ہے یا نہیں ، خاصا مشکل کام ہوا کرتا تھا۔ باؤلر کے نزدیک یہ آؤٹ ہوتا تھا اور بیٹسمین کے نزدیک نا ٹ آؤٹ۔ پھر جس کا زور چلتا وہ روندی مار لیتا۔ کبھی باؤلر ناٹ آؤٹ کو آؤٹ قرار دیتا اور کبھی بلے باز اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے آؤٹ ہونے کے باوجود خود کو نا ٹ آؤٹ قرار دینے کی کوشش کرتا۔ اس پر لڑائی شروع ہوتی، بلا ایک دوسرے سے کھینچا جاتا اور بات بگڑتے بگڑتے کمزور فریق کے رونے دھونے تک جاپہنچتی۔ پھر ایک بھائی روتے ہوئے ماں کو جا لپٹتا اور دوسرا دادی اماں کو اپنی طرفداری کے لیے بلا لاتا۔ اب یہاں سے بات بچوں کے کھیل سے اس عالمی جنگ تک پہنچتی جسے بلاشبہ آج تک ہونے والی سب سے بڑی جنگ قرار دیا جاسکتا ہے، اور جس کے دو بدو لڑے جانے والے معرکوں کی تعداد دونوں عالمی جنگوں کے کل معرکوں سے یقینا ً زیادہ ہوگی۔
ہم ذرا بڑے ہوئے تو صحن اور گلی کی کرکٹ سے نکل کر ’منٹو پارک‘ یعنی موجودہ گریٹر اقبال پارک کی کرکٹ ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ لیکن کرکٹ میں ہونے والی روند ی یا دھاندلی نے ہماری جان یہاں بھی نہ چھوڑی۔ البتہ یہاں روندی زیادہ تر بلے بازوں کی طرف سے دیکھنے میں آتی تھی۔ باؤلروں کی پوری’ اپوزیشن‘ ایک بلے باز کو پورا زور لگا کر آؤٹ کرنے کی کوشش کرتی تھی ، اور اسی کوشش میں کئی چوکے چھکے بھی کھاتی تھی، لیکن جب بلے باز بالآخر آؤٹ ہوتا تو کبھی امپائر ناٹ آؤٹ قرار دے دیتا اور کبھی بلے باز خود اَڑ جاتا ۔چونکہ اس زمانے میں نیوٹرل امپائر کا کوئی تصور نہیں تھا اور صد فی صد امپائر بیٹنگ ٹیم سے ہی لیا جاتا تھا، لہٰذا آؤٹ کی انگلی بمشکل ہی کھڑی ہوتی تھی، باقی آپ سمجھ دار ہیں۔بھارت کے مشہور امپائر رانا سوامی صاحب تو ایسے ہی ہمارے زمانے میں بھارتی ٹیم کی جانب داری کے لیے بدنام تھے، ہمارے منٹو پارک کے جانب دار امپائر ان سے کم از کم چار ہاتھ آگے ہی ہوں گے۔
روندی کے ان مناظر میں خاصی ورائٹی بھی دیکھنے کو ملتی تھی اور سب سے زیادہ محظوظ ہونے والا منظر وہ ہوتا تھا جب جانب دار امپائربھی اپنی تمام تر جانب داری کے باوجود مجبور ہو کر بلے باز کو آؤٹ قرار دے دیتا لیکن بلے باز صاحب، میں نہ مانوں کا ورد کرتے ہوئے، بلا ہاتھ میں لیے کبھی ادھر اور کبھی ادھر پھر رہے ہوتے، کبھی اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرف حمایت کے لیے دیکھتے اور کبھی مخالف ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کو درون خانہ اپنا ’اتحادی‘ اور حمایتی بنانے کی کوشش کرتے۔ کبھی قسمیں کھائی جاتیں ، اللہ دی قسمے ، مَیں ناٹ آؤٹ یعنی’ ایبسولوٹلی ناٹ‘اور دوسری طرف بھی قسم اٹھا کر کہا جاتا، اللہ دی قسمے ،توُ آؤٹ یعنی ’ایبسولوٹلی یس‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے ان کھلاڑیوں کے ہاتھوں ہونے والے مذہب کے اس استعمال یا استحصال پر بڑا ہی ترس آتا تھا ۔ ان کے ہاتھوں میں مذہب ہمیں ایسے ہی لگتا تھا جیسے گھونسلے سے گرا چڑیا کا بوَٹ ہو، دعویٰ سب اسے بچانے کا کرتے لیکن چھینا جھپٹی کے دوران، اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں کی گرفت میں اس کا دَم نکل جاتا تھا۔ منٹو پارک میں ہمارے ساتھ ساتھ کئی بڑی عمر کے افراد بھی کھیلا کرتے تھے، اور انتہائی دلچسپ صورت حال تب ہوتی جب باؤلنگ ٹیم ، روندی مار بلے باز کو آؤٹ قرار دلوانے کے لیے اپنے سے کافی دور کھیلنے والے کسی گروہ کو مداخلت کی دعوت دیتی یا اپنا قضیہ ان کے پاس لے جاتی، پھر ان کا فیصلہ قبول کرنا پڑتا تھا، جیسا بھی ہوتا تھا، کیونکہ ان کے پاس گراؤنڈ سے نکال باہر کرنے کی دھمکی اورپٹائی کی صورت میں اپنے فیصلے کے نفاذ کے لیے ’قوت نافذہ‘ جو موجود ہوتی تھی۔
قارئین محترم! ہم نے اپنے آج کے کالم میں اپنی قومی کرکٹ، اس کی خصوصیات ، اجزائے ترکیبی، کرکٹ کے لیے قومی جذبات اور گوروں کی عطا کردہ سیاست و جمہوریت کے ساتھ اس کے تعلق خاص پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے آپ کو اس کی افادیت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ہم صراحتاً کہتے ہیں کہ اوپر کی گئی تمام بحث غیر سیاسی ہے۔ ہماری کسی بات کا گزشتہ تین سال سے جاری سیاسی ٹیسٹ میچ ، دو مہینوں سے جاری ون ڈے اور گزشتہ دو ہفتوں سے جاری ٹی ٹونٹی سے کوئی تعلق نہیں۔اس طرح کی کوئی بھی مماثلت محض حادثاتی ہی قرار دی جانی چاہیے۔ ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ خان صاحب کی پویلین واپسی ہوچکی ہے یا اتحادیوں اور منحرفین کے پیدا کردہ فٹنس مسائل کی وجہ سے انہیں کچھ دیر کے لیے باہر جانا پڑا ہے، اس کا اندازہ آنے والے دنوں ،ہفتوں یا مہینوں میں ہوتا جائے گا۔دعا کیجیے کہ بات سالوں تک نہ جائے۔کیونکہ ، خاکم بدہن، بات سالوں تک جاپہنچی تو اس میں ہم سب سٹیڈیم سے ایسے اٹھا دیے جائیں گے جیسے ڈرا ہونے والے ٹیسٹ میچ کے مایوس شائقین!