کرکٹ آج کے دن
سنہ 1983 میں بھارت نے ویسٹ انڈیز کو نہایت ڈرامائی انداز میں ورلڈ کپ تو ہرا دیا مگر اس کے بعد ہونے والا ویسٹ انڈیز کا دورہِ بھارت، بھارت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ وہ بھارت جس نے انگلستان کی سرزمین پر ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ کا فائنل ہرایا، وہی بھارت اپنے گھر ویسٹ انڈیز سے ایک میچ بھی نہ جیت سکا۔ پانچ میچز کی ون ڈے سیریز 0-5 اور چھ میچز کی ٹیسٹ سیریز 0-3 سے ویسٹ انڈیز کے نام رہی۔ سیریز تو ویسٹ انڈیز کے نام ہی رہی مگر اس سیریز کے چھٹے میچ میں بھارت کے عظیم ترین بلے باز جناب سنیل گواسکر نے ایک کوہ شکن کارنامہ سر انجام دیا۔
ویسٹ انڈیز کا مذکورہ دورہ بھارتی سورما سنیل گواسکر کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ کان پور ٹیسٹ میں میلکم مارشل کی ایک برق رفتار گیند نے گواسکر کا بلا اس کے ہاتھ سے جدا کر دیا تو ساتھ ہی ساتھ گواسکر کو یکے بعد دیگرے کئی اننگز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر تو وہ میچ کی پہلی گیند پر ہی چلتے بنے۔ تاہم چھٹے ٹیسٹ میچ میں معاملہ یک سر مختلف رہا۔ ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور 313 رنز بنائے۔ بھارتی اننگز کا آغاز ہوا تو گواسکر نے افتتاحی بلے باز بننے کے بجائے نمبر چار پر بلے بازی کی ، مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ معاملہ اب بھی اوپننگ جیسا ہی رہا کیوں کہ میلکم مارشل کی تباہ کن گیند بازی کے باعث انوشمن گائکواڈ اور دلیپ وینگسارکر بنا کوئی رن بنائے پویلین لوٹے اور گواسکر بلے بازی کے لیے آئے تو بھارت کا اسکور 2/0 تھا۔ سنیل گواسکر نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں اس اننگز کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھارت کا اسکور 2/0 ہوا اور وہ بلے بازی کے لیے آئے تو ابھی انہوں نے اپنی باری کا آغاز نہ کیا تھا کہ قریب کھڑے سر ویون رچرڈز نے ایک بہت خوب صورت طنزیہ جملہ کہا۔ وہ جملہ کچھ یوں ہے:
“No matter what number you bat at, the score is always zero!”
گواسکر اس سیریز میں زیادہ تر ناکام ہی ہوئے تھے۔ گو کہ دو ایک مرتبہ بہت عمدہ کارکردگی بھی دکھائی تھی، مگر مجموعی طور پر ناکام ہونے کی وجہ سے 2/0 پر بلے بازی کے لیے آئے تو شدید دباؤ میں تھے۔ تاہم اس مرتبہ گواسکر نے اپنا روایتی رنگ خوب دکھایا۔ کچھ دیر تو نَوجوت سدھو نے گواسکر کا ساتھ دیا مگر سدھو کے آؤٹ ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈین گیند بازی کا جادو چلا اور ویسٹ انڈیز کا اسکور 6/92 ہوا۔ قریب تھا کہ بھارت ایک اور ہزیمت انگیز شکست کا سامنا کرتا کہ روی شاستری اور گواسکر نے بھارتی اننگز کو خوب سہارا دیا۔ دونوں کی عمدہ شراکت داری نے بھارت کو نہ صرف فالو آن سے بچایا بلکہ بھارت کو ویسٹ انڈیز کے ہدف کے قریب بھی کیا۔ 262 کے مجموعی اسکور پر شاستری 72 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو روجر بنی اور کپیل دیو کی وکٹیں بھی جلد ہی گریں۔ یہاں لگا کہ بھارت ویسٹ انڈیز پر برتری نہ لے پائے گا، مگر وکٹ کیپر سید کرمانی نے گواسکر کا خوب ساتھ نبھاتے ہوئے 63 زنر کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔ شاستری اور کرمانی کے ساتھ عمدہ شراکت داریاں قائم کرتے ہوئے گواسکر نے 28 دسمبر 1983 کو ایک عمدہ سنچری اسکور کی جو بعد میں ایک شان دار ڈبل سنچری بنی۔ یہ گواسکر کی 30 ویں سنچری تھی اور یوں گواسکر نے ڈان بریڈ مین کا 29 ٹیسٹ سنچریز کا 35 برس پرانا ریکارڈ بالآخر توڑ دیا۔ اس سنچری کے بعد گواسکر نے مزید 4 سنچریاں بنائیں اور یوں وہ بہت عرصہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ 34 سنچریاں بنانے والے بلے باز کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ یہاں گواسکر کی بلند پایہ عظمت کی ایک دلیل پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ جن بلے بازوں نے 34 یا اس سے زائد ٹیسٹ سنچریاں بنائیں، وہ 2006، 2012، 2013، 2014، 2015 یہاں تک کہ 2017 تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔ ان میں ٹنڈولکر، ڈریوڈ، لارا، کیلس، پونٹنگ، جے وردھنے، سنگاکارا اور یونس خان جیسے عظیم بلے بازوں کے نام موجود ہیں، جب کہ سنیل گواسکر کا سولہ سالہ ٹیسٹ کیریئر 1987 میں اختتام پذیر ہوا اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں 34 سنچریاں بنائیں جہاں حالات آج کے دور سے یک سر مختلف تھے، جب کہ درج بالا تمام کرکٹرز نے گواسکر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کیا۔
گواسکر نے ناقابلِ شکست 236 رنز بنائے اور مین آف دی میچ قرار پائے، کہ ان کی عمدہ بلے بازی کے باعث بھارت میچ ڈرا کرنے میں کام یاب ہوا۔ یہ اس وقت کسی بھی بھارتی بلے باز کے لیے سب سے بڑا انفرادی اسکور تھا۔ اس سے پہلے یہ اعزاز ونو مانکاد کے پاس تھا۔ گواسکر سے یہ اعزاز 18 برس بعد بھارت کی تاریخ کے انتہائی سٹائلش بلے باز وانگیپوراپو وینکٹا سئی لکشمن، جنہیں دنیا وی وی ایس لکشمن یا ویری ویری سپیشل لکشمن کے نام سے جانتی ہے، نے چھینا۔ یہ واقعہ 2001 کے تاریخ ساز کلکتہ ٹیسٹ میں پیش آیا، جہاں بھارت نے فالو آن ہونے کے باوجود آسٹریلیا کو گرینڈ مدر یاد کروا دی۔
دوسرا قصہ دورِ حاضر کے ایک عظیم فاسٹ بولر سے منسلک ہے۔ جیسے ستر اور اسی کی دہائی کے بلے بازوں کا پلڑا ہر لحاظ سے آج کے بلے بازوں سے بھاری ہے، اسی لحاظ سے آج کے دور کے فاسٹ بولرز کا قد کاٹھ بھی نہایت بلند ہے، کہ انہیں اس دور میں گیند بازی کرنا پڑی، جہاں مجموعی طور پر تمام حالات بلے بازی کے لیے سازگار ہیں۔ ایسا ہی ایک شان دار نام جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے فاسٹ بولر کا ہے جس کے ذکر کے بنا فاسٹ بولنگ کی تاریخ مرتب نہیں ہو سکتی۔ آپ درست سمجھے۔ میں بات کر رہا ہوں ڈیل سٹین کی۔ سنہ 2018 میں آج ہی کے دن سٹین نے اپنے کیریئر کی 422 ویں وکٹ حاصل کر کے ساؤتھ افریقہ کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل یہ اعزاز عظیم ساؤتھ افریقی آل راؤنڈر شان پولاک کے پاس تھا۔ سٹین نے یہ کارنامہ 35 برس کی عمر میں سر انجام دیا اور اس کے بعد مزید 17 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرتے ہوئے کیریئر کا اختتام 439 ٹیسٹ وکٹوں پر کیا۔ سٹین کا کُل کیریئر عزم و ہمت، جرات و قوت اور جارحیت و جنون سے عبارت رہا۔
لگے ہاتھوں آسٹریلیا کے پڑوس میں آباد ایک ننھے منے سے بے وفا اور بے حمیت ملک کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ سنہ 2015 میں سری لنکا کا اس ملک سے ایک روزہ سیریز کا دوسرا میچ جاری تھا کہ سری لنکا کی نوخیز ٹیم اس دور افتادہ ملک کے فضول سے گراؤنڈ پر جم کر نہ کھیل سکی اور فقط 117 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ میزبانوں نے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو کسی نے آ کر ایک سلامی بلے باز کے کان میں کہا کہ بھائی یہاں اپنے ہی ملک میں سیکیورٹی کا مسئلہ بن گیا ہے، بھاگ کر کہیں اور تو رو پوش ہو نہیں سکتے، اس لیے جلد از جلد میچ ختم کرو۔ یہ وہی بلے باز تھا جو اپنے ملک میں ورلڈ کپ میں کم زور ٹیموں کو ڈبل سنچری بھی جڑ دیتا ہے مگر کسی دوسرے ملک میں جا کر پورے ورلڈ کپ میں بھی ناکام رہتا ہے اور اگر ورلڈ کپ کی آخری گیند پر سورما کہلوانے کا موقع ملے تو اسے بھی شان دار انداز سے ضائع کرے اور دوسرا رن مکمل کرتے ہوئے بلا کریز سے اتنا ہی دور رہ جائے جتنا کوئی نام نہاد ٹین ایجر نوخیز عاشق عقل سے دور ہوتا ہے۔ بس سیکیورٹی کا مسئلہ بنا اور میدان بھی اپنا ہی تھا، اس لیے کسی بھی ٹیم کی درگت بنانا کیا مشکل ہے، سو بھائی نے میچ جلدی ختم کرنے کی غرض سے 30 گیندوں پر ناقابلِ شکست 93 رنز بنائے اور اپنے ہی ایک ساتھی کھلاڑی کا ریکارڈ توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ یوں 118 رنز کا ہدف فقط آٹھ اعشاریہ دو اوورز میں حاصل ہوا۔