کورونا اور سرمایہ دارانہ نظام مل کر دنیا میں معاشی تفاوت کو کیسے بڑھارہے ہیں؟
کورونا نے جہاں ایک طرف دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا اور کروڑوں کوبے روزگار کرکے رکھ دیا وہیں اس وبا کی بدولت پہلے سے ارب پتی انسانوں کی دولت میں بے تحاشا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور نئے ارب پتیوں نے بھی جنم لیا ہے۔ صرف براعظم ایشیا میں اس وبا نے 20 نئے ارب پتی (ڈالرز کے لحاظ سے)پیدا کیے ہیں او رپہلے سے موجود ارب پتیوں کی دولت میں تین چوتھائی یعنی 75 فیصد اضافہ کیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی ادارے آکسفیم کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کووڈ وبا کی وجہ سے ایشیا میں جہاں دس لاکھ سے زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے وہیں اس وبا نے گزشتہ دو سالوں میں براعظم ایشیا میں کم از کم 14 کروڑ انسانوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے ۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، 2020 میں، ایک اندازے کے مطابق 81 ملین ملازمتیں اور چھوٹے کاروبار ختم ہوگئے ۔ اسی طرح کام کے اوقات میں کمی نے مزید 25 ملین افراد کو غربت کی طرف دھکیل دیا۔
لیکن اسی عرصہ کے دوران ایشیا کے ارب پتیوں نے اپنی دولت میں1.46ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرلیا جو کہ ملازمت سے محروم تمام لوگوں کو تقریباًدس ہزار ڈالر فی کس تنخواہ فراہم کرنے کے لیے کافی تھا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مارچ 2021 تک کووڈ کے علاج کے لیے درکار دواسازی، طبی آلات اور خدمات سے حاصل ہونے والے منافع نے 20 افراد کو نئے ارب پتی بنا دیا ۔
ان نئے ارب پتیوں میں چین، ہانگ کانگ، بھارت اور جاپان سے لی جیان کوان شامل ہیں، جن کی فرم، ونر میڈیکل، صحت کے کارکنوں کے لیے ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) بناتی ہے، اور ڈائی لیژونگ، جن کی کمپنی، سنسور بائیوٹیک، کووِڈ 19 ٹیسٹ کرتی ہے اور تشخیصی کٹس بناتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں ارب پتیوں کی کل تعداد تقریباً 1,087 ہو گئی ہے اور ان کی اجتماعی دولت میں تین چوتھائی (74٪) اضافہ ہوا۔مزید یہ کہ سب سے امیر ایک فیصد غریب ترین 90 فیصد سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید رپورٹس بھی ہیں جو بتاتی ہیں کہ ایشیا میں امیر اور غریب افراد میں دولت کا فرق بڑھنے کو ہے۔ کریڈٹ سوئس نامی ایک مالیاتی تنظیم نے پیش گوئی کی ہے کہ، 2025 تک ایشیا میں 42,000 مزید لوگ ہوں گے جن کی دولت 50 ملین ڈالرسے زیادہ ہوگی اور 99,000 ارب پتی ہوں گے۔ 2025 تک کروڑ پتیوں کی تعداد 15.3 ملین ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں 58 فیصد زیادہ ہے۔اسی طرح ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف دونوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس عالمی معاشی عدم مساوات میں نمایاں اضافے کا سبب بنے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا کے ممالک میں سیاسی نظام ایک قلیل اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ نتیجتاً امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے جبکہ غریب مزید پسماندگی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ یہ رپورٹ دراصل انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے جو چیخ چیخ کر یہ پکار رہی ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت کا شکار ہوکر خود ایک ویمپائر کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کامقصد دوسرے انسانوں کا خون پینا اوران کی بیماریوں، دکھوں اور تکلیفوں سے فائدہ اٹھانا رہ گیا ہے۔