کلوننگ کی پیداوار

اس کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا تھا۔
ماں کے کہنے پر وہ دس روپے کا ایک کلو آٹا خرید لایا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مہینے کا منیاری کی دکان سے ادھار سودا سلف لاناگھر کے معمولات میں شامل تھا۔
کبھی کبھار اس کے باپ کی دکاندار سے چخ چخ ہو جاتی تو اس کا خون کھولنے لگتا۔ اسے لگتا تھا اس گھر سے عزتِ نفس کا جنازہ نکل گیا ہے۔ بیروزگاری نے سب کے مزاج چڑ چڑے کر دیے تھے۔ بیروزگاری جو پورے ملک میں بال بکھرائے آوارہ گھوم رہی تھی اور کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔
اب تو اس نے تنگ آکر اخبار میں آسامیوں کے اشتہار پڑھنے بھی ترک کر دیے تھے۔ ماں جس کے قدموں میں جنت تھی ایک دن اس کے اسرار پر اس نے پھر درخواست دے ڈالی۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے۔
ایک لمبی قطار تھی۔
آٹا خریدنے والوں کی نہیں بلکہ نوکری کی تلاش میں سرگرداں ایسے امیدواروں کی جن کے چہروں پر یرقان نے بسیرا کیاتھا۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے میٹرک کا امتحان سائنس کے ساتھ پاس کرنے کے بعد ستّر روپے دہاڑی پر پھُلکا کمایا تھا۔ اور گھر کی دیواروں سے غربت کھرچنے میں ناکام رہے تھے۔ پانچ آسامیوں کے لیے لگ بھگ پانچ سو امیدوار اپنے اندر امید کی کالی دیوار پر روشنی کے ایک نقطے کے منتظر تھے۔ ان میں وہ بھی تھا جس کے گھر آٹا ختم تھا۔ اور ٹیکنیکل ہینڈ ہونے کے باوجود وہ بیروزگار تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ آسامیوں کا اشتہار صرف فارملٹی کے لیے ہوتا ہے۔ چناؤ پہلے سے ہی کر لیا جاتا ہے۔ لیکن سانس کھینچنے کے عمل کے لیے تگ و دو کو وہ فرض گردانتا تھا۔ پرائیویٹ اداروں میں بھی اس نے اپنی سی کوشش کر لی تھی۔ ناکامی ہر جگہ اس کے ساتھ رہی اور اس کا ساتھ نبھاتی رہی۔
اس نے سینکڑوں امیدواروں پر نظر ڈالی۔
سب چہرے ایک جیسے تھے۔ جیسے کلوننگ کی پیداوار ہوں۔
اِکا دُکا چہروں پر اس نے اطمینان کی لہر دیکھی۔ شاید ان کی جیبوں میں سفارش کے بھاری پتھر رکھے تھے۔ انہی پتھروں کے خوف سے اس کا خیال تھا کہ انٹر ویو پینل والے ان کا چناؤ کر لیتے تھے۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آوازوں میں اس کے اندر کی آواز کسی تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ وہ چپ تھا شاید سارے ہی چپ تھے۔ اس کے ساتھ بیٹھے امیدوار نے جب اس سے سوال کیا کہ اس کی تعلیم کیا ہے اور کیا وہ کسی سفارش کی بنیاد پر آیا ہے تو اس کا جی چاہا وہ اسے بتا دے کہ ہم سب یوں ہی آئے ہیں۔ ہم میں سے کسی کو بھی نوکری نہیں ملے گی۔
یار..... تم سفارش کی بات کرتے ہو۔ اپنے گھر تو اب بھوک پکتی ہے۔
مایوس کیوں ہو.....؟مایوسی تو کفرہے۔
میں اس کفر کا عادی ہو گیا ہوں۔ وہ سامنے والے نوجوان کو دیکھ رہے ہو۔ جس نے اپنے لمبے بال پیچھے کی طرف ڈال رکھے ہیں۔
دیکھ رہا ہوں۔
یہ چیئر مین کا سگا بھانجا ہے۔ اسی لیے تو چہک رہا ہے۔ اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی پشت پر کرنل، برگیڈئیر اور جرنل بھی ہیں۔ بعض لمبا مال لگا کے بھی آئے ہیں۔ بس دیکھتے جاؤ۔
یار جب ملک ان کا ہے۔ سیاہ و سفید کے یہ مالک ہیں تو ہم کس قطار اور شمارمیں ہیں.....؟
قسمت آزمانے میں کیا حرج ہے؟
نام پکارے جا رہے تھے
اور امیدوار ایک ایک کر کے اپنی باری پر اندر جاتے اور مایوسی کی چادر اوڑھ کر باہر نکل آتے۔ اس کی باری کہیں شام ڈھلے آئی تب تک وہ تھکن سے چور ہو چکا تھا۔ اس کا جب نام پکارا گیا تواسے یہ یاد ہی نہیں تھا کہ اس کے گھر آٹا ختم ہو چکا ہے۔ وہ پورے اعتماد سے اندر داخل ہوا۔
May I come in sir
Yes, come in
السلام علیکم..... اس کے لہجے میں شائستگی تھی
وعلیکم ا لسلام.....
افسران پورے کرّوفرکے ساتھ اپنی اپنی آرام دہ کرسیوں میں دھنسے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کے گھر بھوک نہیں پکتی تھی
اس نے فائل ان کے سامنے رکھی
ڈائریکٹر نے اس کے کاغذات کو ایک نظر دیکھا اورپینل میں موجود افسران سے سوال پوچھنے کا کہا۔ پینل کے افسران کے چہروں پر ایک اطمینان تھا۔ وہ پر اعتماد تھا اور اس نے پورے اعتماد سے سوالوں کا جواب دیا۔ جب وہ باہر نکلا تو جانے اسے کیوں یقین تھا کہ اس کا چناؤ کر لیا گیا ہے۔ اسے تھکن اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اس نے جانے کیسے جرأت کر کے کہہ دیا تھا کہ اس کے گھر صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ممکن ہے کسی افسر سینے میں دل بھی ہو۔
سر..... اس نوجوان کو Appointکر لینا چاہیے۔ ایک آفیسرنے کہابات تو ٹھیک ہے۔ نوجوان انتہائیTalentedہے۔ ادارے ایسے ہی ٹیلنٹڈایمپلائیز سے Run کرتے ہیں۔ لیکن؟
لیکن کیا..... سر.....؟ ایک سینئر ترین آفیسر نے پوچھا
چےئرمین صاحب کے بھانجے کا کیا کیا جائے۔
تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
کافی میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ کی آواز کے سوا اور کوئی آواز نہیں تھی۔
اسے کسی اور کھاتے میں کھپانے کی کوشش کر لیں گے۔
ناممکن..... ڈائریکٹر نے کہا۔
میں اس روز ان کے گھر موجود تھا جب ان کی ہمشیرہ ان سے اپنے بیٹے کے لیے جھگڑ رہی تھی۔ چےئرمین صاحب کا کہنا تھا کہ اداروں کو چلانے کے لیے ہمیں ٹیلنٹڈ اذہان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور میرا بھانجا پرلے درجے کا نالائق اور لاپرواہ ہے۔ چار پیسے دے کر اس نے ڈگری تو لے لی ہے لیکن وہ اس اسامی کے اہل نہیں ہے۔
ان کی ہمشیرہ تراخ سے بولی۔ یہ ملک اور اس کا قانون ساز ادارہ انگوٹھے چھاپ ممبران سے چل سکتا ہے تو آپ کا ادارہ میرے بیٹے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتا۔
چےئرمین صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
تو پھر کیا کیا جائے.....؟
سر..... اس نوجوان کو تو ہمیں ہر حال میں Appointکر ناچاہیے۔ کیونکہ جو مشینری ہم نے باہر سے امپورٹ کی ہے۔ اسے ایسے ہی قابل ٹیکنیشین چلا سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر نے اس نوجوان کو Appointکرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔
اگلے روز چےئرمین صاحب کی میز پر جب فائل پہنچی تو وہ سیخ پا ہو گئے اورساری اسامیاں کینسل کر دیں۔
یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ہے.....؟
سر..... اس نوجوان نے انٹر ویو میں سو فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔
کسی جرنل کی کوئی سفارش تھی کیا.....؟
نہیں سر.....
تو پھر.....؟
سر..... قابلیت کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ اس کے گھر صرف ایک وقت کا آٹا تھا۔
تو گندم کی بوری بھجوا دی ہوتی۔
اور اخبار میں دوبارہ Advertisement دینے کا حکم جاری فرما کر میٹنگ برخواست کر دی۔
چند روز بعد اس کی ماں اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر چونکی
بیٹا..... یہ تو وہی اسامی ہے..... نا..... جس پر تم نے اپلائی کیا تھا۔
جی..... امی.....!
تو یہ اشتہار دوبارہ کیوں چھپ گیا ہے۔
امی رہنے دیجیے..... اس مُلک کی ساری بیوروکریسی اور اربابِ اقتدارکے چہرے ایک سے ہیں۔ یہ سب کلوننگ کی پیداوار ہیں۔