چور ہے شیشۂ دل ایک نظر اور سہی

چور ہے شیشۂ دل ایک نظر اور سہی
اک نیا خواب مرے دیدۂ تر اور سہی


کیوں نہ دو چار قدم ساتھ بھی چل کر دیکھیں
ہے مری راہ جدا تیرا سفر اور سہی


اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں سے چلو مل آئیں
اے مری زندگی اک زخم جگر اور سہی


اب کے شاید کسی منزل کا پتہ مل جائے
رائیگاں لمحوں میں اک راہ گزر اور سہی


عمر تو ساری گھروندوں ہی میں گزری ہے ضمیرؔ
آخری بار یہ اک ریت کا گھر اور سہی