کیا واقعی چین ایغور مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہا ہے؟
اکتیس اگست 2022 کو اقوام متحدہ کے ادارے آفس آف ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس نے چینی حکام کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ شائع کی۔ ایک عرصے سے عالمی حالات خصوصاً چین پر نظر رکھنے والے ماہرین اس رپورٹ کے انتظار میں تھے جو اکتیس اگست کو اقوام متحدہ میں تعینات انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے اپنی مدت ملازمت کے ختم ہونے پر جاری کی۔ اس وقت یہی رپورٹ پورے عالمی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کئی تو صرف یہ سوچ کر اس رپورٹ سے صرف نظر کر جائیں کہ یہ امریکی پراپیگنڈہ ہے اور کچھ نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ اس رپورٹ کو آپ میں سے کئی چین کے خلاف ایف آئی آر سمجھیں۔ لیکن میرا خیال ہے تصویر اس قدر سیاہ و سفید نظر نہیں آتی کہ فوری کوئی فیصلہ کر لیا جائے۔ ایک طرف تو مغربی میڈیا کی پھیلی پراپیگنڈہ مشینری ہے اور دوسری طرف جبری مشقت، مسلمان جوڑوں میں زبردستی علیحدگی، قید، ظلم کی حد تک قدغنیں، مساجد اور مزارات کی تباہی وغیرہ کے ثبوت اس قدر ہیں کہ آپ چاہ کے بھی صرف نظر نہیں کر پاتے۔
آپ عالمی اداروں کی رپورٹس کو شک کی نگاہ سے تو دیکھ لیں لیکن ان ہزاروں ایغوروں کی کہانیوں کو کہاں لے جائیں جو چین سے بھاگ نکلنے کے بعد سناتے پھرتے ہیں۔ جب اس قدر ثبوت موجود ہوں تو آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر چین مخالف طاقتیں باتوں کو غلط تناظرمیں پیش کر کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں یا بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ ہےہی نہیں ۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایغور مسلمانوں اور چین کی حکومت کے مابین مسئلہ ہے کیا؟ کیوں وہ مبینہ طور پر مشق ستم بنے ہوئے ہیں؟
چینی حکومت اور ایغور مسلمانوں کے درمیان مسئلہ کیا ہے؟
ایغور مسلمان چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ میں آباد ترکی النسل لوگ ہیں ۔ الجزیرہ کے مطابق ایغور اپنے آپ کو چین کی بجائے نویں سے بارویں صدی میں رہنے والی ترک سلطنتوں میں سے ایک کے ساتھ منسلک کرتے ہیں اور اس علاقے کو الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے اس ملک کا نام انہوں نے مشرقی ترکستان یا ایسٹ ترکستان رکھا ہوا ہے۔ جبکہ چینی حکام جو کہ بیشتر ہان نسل سے ہیں سنکیانگ کو قبل مسیح سے چین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ایغور مسلمانوں کا موقف ہے کہ اس علاقے کی سرحدیں تبدیل ہوتی رہی ہیں اور ہمیشہ یہ چین کا حصہ نہیں رہا۔ اب چونکہ دیگر چینیوں سے ہٹ کر ان کا مذہب،زبان اور نسل ہے تو انہیں یہاں اپنا علیحدہ وطن بنانے دینا چاہیے۔ الجزیرہ پر شائع ایغور مسلمانوں کے تعارف کے مطابق وہ مشرقی ترکستان قائم کرنے کی 1933 اور 1944 میں ناکام کوشش کر بھی چکے ہیں۔ چینی حکام کسی طرح بھی اس جغرافیائی اہممیت کے حامل علاقے کو ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتے۔ سنکیانگ تاریخی اہمیت کی حامل شاہراہ ریشم کے ساتھ موجود ہے جو آٹھ ممالک سے اپنی سرحدیں رکھتا ہے۔ یہ شاہراہ ریشم چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں شہ رگ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
سنکیانگ میں کوئی بھی اگر علیحدگی کی تحریک زور پکڑتی ہے جیسا کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ تو ظاہر ہے چینی حکام اسے کچلنا چاہیں گے۔ دوسری طرف چین میں برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی اشتراکی نظریات کی حامل جماعت ہے۔ یہ نظریات اسلام کیا کسی بھی مذہب کو برداشت کرنے کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک مذہب تو افیون ہے جس نے انسانیت کو مدہوش کر رکھا ہے۔ ان کے اشتراکی نظریات اور مسلمانوں کی مخالفت کس قدر تنازع جنم دے سکتی ہے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ باقی یہ ضرور ہے کہ موجودہ چینی کیمونسٹ پارٹی اشتراکیت کے فلسفے میں بہت سی تبدیلیاں لائی ہے۔ اب ان تبدیلیوں میں ایغور مسلمانوں کی کیا جگہ بنتی ہے یہ بات تحقیق طلب ہے۔
باقی ان حقائق کی روشنی میں اگر مغربی اقوام کے ایغور مسلمانوں پر چینی حکام کے مظالم کے الزامات دیکھیں تو بہت حقیقت نظر آتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں، بجائے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔