چین کی افغانستان میں بڑھتی دلچسبی
کوئی ملک یا اس کی حکومت کتنی طاقت ور اور مضبوط ہے، اس کا جائزہ لینے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کے عالمی اور علاقائی طاقتوں میں کتنے حلیف ہیں۔ ظاہر ہے، دنیا میں جو اس وقت نظم قائم ہے اس کے مطابق حریف یا حلیف بننے کا فیصلہ تو صرف ملکی مفادات کو ہی مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ باقی چیزیں تو عموماً صرف بہانہ ہوتی ہیں، چاہے وہ انسانی اقدار ہوں یا کچھ اور۔ عالمی منظر پر ہوتے فیصلے یہی بتاتے ہیں۔ بہر کیف، ہم صرف افغانستان کی بات کرتے ہیں۔ آج سے دو دہائیاں قبل دو ہزار ایک میں جو ستمبر افغانیوں کے لیے ستم گر ثابت ہوا تھا آج اسی ستمبر میں افغانستان اپنا پہلا آزادی کا مہینہ گزار رہا ہے۔ طالبان جو پہلے عالمی تنہائی کا شکار ہوئے اور پھر بہیمانہ بمباری کے سائے میں کابل سے نکالے گئے، آج کابل میں پھر افغانستان کی لگامیں تھامے بیٹھے ہیں۔ لیکن وہ عالمی تنہائی جو ان کے انیس سو چھیانوے سے دو ہزار ایک تک کے دور میں تھی اس کے سائے آج بھی موجود تو ہیں لیکن کچھ کچھ چھٹتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ دنیا کی ابھرتی عالمی طاقت چین کے مفادات کا الحاق مستحکم افغانستان سے ہو جانا ہے۔ چین جو افغانستان کے ساتھ 76 کلومیٹر کی سرحد رکھتا ہے، طالبان کے پچھلے دور میں پہلے تو بظاہر افغانی معاملات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا نظر آیا لیکن پھر جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو پوری عالمی برادری کی طرح امریکہ کے ہمراہ ہو گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مبینہ طور پر طالبان کے دور میں افغانستان سے چین کے سنکیانگ صوبے میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کی امداد تھا۔ لیکن پھر دو دہائیاں گزریں، عالمی حالات میں کئی جوار بھاٹے پھوٹے۔ بہت سی جگہوں پر اتھل پتھل ہوئی۔ آج کے دوست کل کے دشمن ہوئے اور کل کے دشمن آج کے دوست ٹھہرے۔ عالمی منظر پر لگتی قلا بازیوں میں ایک یہ بات کھلی کہ امریکہ چین کو اپنا نمبر ایک دشمن بنا چکا ہے اور چین بھی اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے، خود کو امریکہ کے لیے لوہے کا چنا بنا رہا ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط کرتے چین کے لیے افغانستان تین حوالوں سے ضرورت بن گیا۔
1۔ دفاعی
2۔ سٹریٹجک یا تذویراتی
3۔ معاشی
دفاعی لحاظ سے افغانستان چین کے لیے اس باعث اہم ہے کہ کوئی اس کی سر زمین سے مشرقی ترکمانستان تحریک کی امداد نہ کر سکے۔ دراصل چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمان اپنے آزاد وطن کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس کے لیے ان کی مسلح کاروائیاں بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ لیکن چین کی موجودہ قیادت نے صدر شی جی پنگ کی سربراہی میں ان مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ بہت سی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ چین بس یہ چاہتا ہےکہ اس تحریک کو افغانستان ہوا نہ دے۔ کیونکہ اس تحریک کے افغانستان سے پنپنے کی صورت میں چین کو وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں جو کہ بصورت دیگر چین کی ترقی میں لگائے جا سکتے ہیں، اس کی حکومت کی توجہ ترقی سے ہٹتی ہے اور سخت اقدامات کی صورت میں چینی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کا کیس مضبوط ہوتا ہے۔
اسی طرح افغانستان چین کے لیے تذویراتی یا سٹریٹجک حوالے سے اس لیے اہم ہے کہ یہ اس کے ہمسائے میں واقع ہے۔ اگر وہ اس میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو نہ صرف وہ امریکہ کے بھاگنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کر سکتا ہےبلکہ اپنی ایک سرحد کو بھی محفوظ بنا سکتا ہے۔ اس سے اسے کواڈ گروپ جیسا کوئی دوسرا الائینس بننے کی صورت میں خطرے کا سامنا نہیں ہو گا۔ اب اگر چین کے افغانستان میں معاشی مفادات دیکھیں جائیں تو وہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ چین افغانستان کو اپنے بلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو میں ایک اہم جزو کے طور پر رکھ سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک چین کا خاص ہدف ہوتے ہیں۔ جہاں وہ ذراعت، بجلی، انفراسٹرکچر، دفاع، غرض ہر شعبے میں سرمایہ کاری کرکے اپنے ڈیڑھ ارب لوگوں کے رزق کا بندوبست کرتا ہے۔ اسی طرح افغانستان سے اسے اہم معدنیات مل سکتی ہیں۔ بہت سا خام مال ایسا ہے جو افغانستان سے چین حاصل کرتا ہے۔
یہ سب چیزیں، اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ افغانستان چین کے لیے بہت اہم ہے۔ چینی حکومت افغانستان میں ہر اس حکومت کا ساتھ دے سکتی ہے، جو ان مفادات میں سے کسی پر بھی ضرب نہ لگائے۔ اس کو اس سے غرض نہیں کہ افغانستان میں کس نظریے یا عقائد کی حامل حکومت آ رہی ہے۔ کیوں کہ اسے بظاہر امریکہ کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کا نفاذ نہیں کرنا۔
اب دوسری طرف افغانستان میں برسر اقتدار فاتح طالبان حکومت کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ان کے بھی کئی مفادات ایسے ہیں جو کہ چین سے منسلک ہیں۔ چین ان کے لیے وہ اہم طاقت ثابت ہو سکتا ہے جو مغربی طاقتوں کی کھلی مخالفت سے انہیں بچا سکتا ہے۔ کیوں کہ جب انہیں افغانستان کا چین کی گود میں جا گرنے کا خوف ہوگا تو وہ کسی نہ کسی طرح اسے اپنے ساتھ منسلک رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے اداروں نے افغانیوں کی امداد روکی ہے، وہیں امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے ان کی امداد بھی کر رہا ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ افغانستان کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ منسلک رکھا جا سکے۔
اسی طرح چین افغانستان کا اقوام متحدہ کے فورم پر ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔ جنگ زدہ افغانستان کو اس وقت پھر سے تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ طالبان کا اس میں چین ساتھ دے سکتا ہے۔ صرف ان کو چین کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ اس کے مفادات طالبان کے برسراقتدار ہونے سے تاراج نہیں ہونگے۔ طالبان ایسا ہی کر رہیں ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین ہوں یا ذبیح اللہ مجاہد، دونوں بار بار اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اس سے چین کا ایک بہت بڑا خدشہ رفع ہوتا ہے۔
جب ہم دونوں حکومتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مفادات جڑتے دیکھتے ہیں تو لگتا کچھ ایسے ہے کہ چین کی طالبان حکومت کی حمایت کی بیل منڈھے چڑھے گی۔ اس کے لیے طالبان کی جانب سے کاوششیں بھی جاری ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔