چین عراق کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرو رسوخ کیسے بڑھارہا ہے؟
جیسے جیسے امریکہ عرب کے خطے سے پیچھے ہٹ رہا ہے، چین یہاں اپنا اثر رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے۔ عالمی پیمانے پر جاری افرا تفری کے باوجود چین نے مشرق وسطیٰ میں اپنی سرمایہ کاری نہیں روکی ۔ شنگھائی کی ایک یونی ورسٹی کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین نے 2021 میں عراق میں دس ارب ڈالر کا ایک تعمیراتی معاہدہ کیا ہے، جو کہ بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو کی اس سال کے دوران کل سرمایہ کاری کا ایک بٹا چھے ہے۔ عراق مشرق وسطیٰ میں چین کا سب سے بڑا تجارتی حلیف بن کر ابھرا ہے۔ اس سے چین، سعودی عرب اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تیل حاصل کر رہا ہے۔ عراق کی خلیج فارس اور آبنائے ہرموس کے نزدیک تزویراتی اہم جگہ اور تیل کے ذخائر نے اسے بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو کے لیے اہم ملک بنا دیا ہے۔ جیسے ہی امریکہ اس علاقے سے پیچھے ہٹے گا ، چین اپنا اثر بڑھا دے گا۔ بغداد سے اس کے بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات کا لازمی نتیجہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر رسوخ میں اضافے کے طور پر بھی نکلے گا۔ ایران اور ترکی جو عراق سے جڑے ہوئے ہیں، چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
بی ار آئی تلے چین کی بڑھتی موجودگی امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی سٹریٹجی کے لیے رکاوٹ ہے۔ جہاں گزشتہ دہائی سے امریکہ مشرق وسطیٰ سے خود کو علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں یہ بات اس کی مشرق وسطیٰ میں موجود اب تک ایک مضبوط معاشی، سیاسی اور عسکری حیثیت کے لیے خطرہ ہے۔
چین کے عراق کی تعمیر نو کے لیے اقدامات اور ایران سے بڑھتے تعلقات، اس کی عراق میں موجودگی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ سب وہاں امریکہ (کے مفادات) کی قیمت پر ہو رہا ہے۔ 1981 سے چین اور عراق کے مابین انرجی کوآپریشن دونوں ممالک کے تعلقات کا اہم جزو ہے۔ اس تعاون کے دوران چین کی کمپنی چائنہ انجینئرنگ پیٹرولیم اینڈ کنسٹرکشن کوآپریشن نے عراق میں تعمیرات شروع کی تھیں۔ چین اور عراق کے مابین تعلقات کا بڑھ کر 2015 میں تزویراتی شراکت داری بن جانا، امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ عراق کو اس وقت داعش کے بعد از سر نو تعمیر کے لیے اٹھاسی ارب ڈالر درکار تھے۔ بیجنگ کے لیے یہ اہم موقع تھا کہ وہ سرمایہ کاری اور تعمیرات کے ذریعے اپنی موجودگی بڑھائے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت 2018 میں اپنے عروج پر پہنچی جب اس کا حجم تیس ارب ڈالر ہو گیا۔ چین سے عراق کے تعلقات سابقہ وزیر اعظم عدیل عبدالمہدی کے دور میں پروان چڑھے ۔ 2019 میں انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک بہت بڑی پیش رفت قرار دیا۔ 2021 کے پہلے نصف کے دوران دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم سولہ ارب ڈالر سے زائد ہو گیا تھا۔
عراق میں (اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کے لیے) چین نے امریکہ کے برعکس ہارڈ پاور کی بجائے سوفٹ پاور استعمال کی ہے۔ اس میں معاشی سرمایہ کاری اور عدم مداخلت کے اقدامات سر فہرست ہیں۔ چین تنازعات کے بعد بکھرے مواقع سے عسکری مداخلت کے برعکس ثالثی کی کوششیں اور معاشی ذمہ داریوں کو پورا کر کے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس نے کئی بار سلامتی کونسل میں شام کے تنازعے میں مغربی بلاک کے خلاف اور روس کے حق میں اپنا ویٹو پاور کا حق استعمال کیا ہے۔ یہ نظر آ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں چین خطے میں امریکی سیاسی اور عسکری قوت کو کم کرے گا۔
چین کی مشرق وسطیٰ میں سٹریٹجی یہ ہے کہ ایسا جغرافیائی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس سے خطے میں مغربی طاقتوں کے خلاف قوت کھڑی کی جا سکے۔ اس قوت کے ذریعے مغرب کی طاقت کے خلاف توازن برقرار کیا جا سکے۔ اس قوت کی سربراہی ایران اور چین کر رہے ہوں۔ اس ضمن میں، امریکہ کی عراق میں عسکری رول کی کمی نے چین کے عالم گیر اور ایران کے علاقائی مقاصد کے حصول کے لیے دروازہ کھولا ہے۔ عراق میں عسکری، سماجی اور سیاسی ایرانی اثر رسوخ نے ایران کو امریکہ اور چین کی لڑائی کے مابین بہتر پوزیشن لینے کا موقع دیا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ایران کے عراق کے ساتھ معاشی تعلقات ہیں۔ اس کے پاس عراق کی سیاست میں مداخلت کی اہلیت موجود ہے۔ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ کئی جنگجو گروہ موجود ہیں۔ ایران عراق میں امریکہ کی موجودگی سے خاصا بے چین ہے جس کا اظہار وہ امریکی کرائے کے فوجیوں پر حملے کر کے کرتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں وہ چین کو اپنا بہتر حلیف سمجھتا ہے۔
عراق کی بی آر ائی پروجیکٹ میں اس لیے بھی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کو یورپ سے منسلک کرنے کا اہم زمینی راستہ ہے۔ یعنی ایران سے عراق، پھر عراق سے ترکی اور پھر یورپ۔ اس وجہ سے ترکی بھی بی آر آئی پروجیکٹ کو خاص اہمیت دیتا ہے کہ اسے اس سے اپنے بہت سے معاشی فوائد جڑے نظر آتے ہیں۔
یوں عراق تمام بڑی قوتوں کے لیے اہم ملک بنتا جا رہا ہے۔