چڑیوں کی شکایت

چڑیوں نے بے طرح ستایا ہے
میرے کمرے کو گھر بنایا ہے
چھت پہ ان کو جہاں ملی ہے جگہ
اک نہ اک گھونسلہ بنایا ہے
عین میرے پلنگ کے اوپر
ہے جو حصہ وہ ان کو بھایا ہے
تار بجلی کا ہے جو چھت پہ لگا
وہ تو میراث ہی میں پایا ہے
کوئی کھونٹی ہو طاق ہو در ہو
ان کی جاگیر میں وہ آیا ہے
سر پہ بیٹوں کا مینہ برستا ہے
بے ڈھب ایسا یہ ابر چھایا ہے
تکیہ پر میز پر کتابوں پر
مہر کا سا نشاں بنایا ہے
حصہ مجھ کو بھی کچھ ملا ہے ضرور
جب چڑا تنکے لے کر آیا ہے
ان کی چوں چوں کا راگ سن کر دل
گانا سننے سے تنگ آیا ہے
سب کے سر پر خدا کا ہے سایہ
مجھ پہ ان کے پروں کا سایہ ہے
اس قدر بیٹ کرتی ہیں کم بخت
ناک میں دم ہر ایک کا آیا ہے
صبح سے لڑ رہی ہیں آپس میں
سر پہ سارا مکان اٹھایا ہے
پڑھ نہیں سکتا لکھ نہیں سکتا
اس قدر شور و غل مچایا ہے
ایسا معلوم ہوتا ہے گویا
میرا کمرہ نہیں پرایا ہے