چکن کی فروخت کا بزنس
چکن بزنس۔۔۔ ایک بہترین منافع بخش بزنس
اس بزنس کی تفصیل میں جانے سے قبل ایک حقیقت کا جاننا بہت ضروری ہے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ گوشت اور خاص کر چکن کے نام پر ہم کیا کچھ کھاتے ہیں۔
ہوٹلوں میں چکن بریانی، چکن پلاؤ، چکن کڑاہی وغیرہ میں معلوم نہیں کیسا چکن ہوتا ہے۔
کیا ہم میں سے کسی نے آج تک ہوٹل کا چکن کھانے سے قبل اس کی تحقیق کی کہ یہ کیسا اور کس کوالٹی کا چکن ہے؟۔ بازاروں میں موجود شوارما، برگر، سوپ اور باربی کیو میں استعمال ہونے والا چکن کیسا ہے؟۔کوئی زحمت نہیں کرتا کہ معلوم ہوجائے کہ یہ کس کوالٹی کا چکن ہے؟۔ کیوں کہ سامنے پڑے چکن کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فضول ہے کہ یہ صحت مند اور صحیح مرغی کا گوشت ہے یا بیمار اور مردہ مرغی کا۔
کھانے پینے کی ہر چیز کے ساتھ لوگوں نےظلم کیا لیکن چکن اور گوشت کے نام پر کیا کچھ کھلایا جاتا رہا ہے یہ آپ سب کو بخوبی معلوم ہوگا۔ بڑے شہروں میں اور خصوصاً لاری اڈوں اور عوامی مقامات پر موجود ہوٹلوں اور ریڑھیوں پر موجود چکن کسی بھی صورت قابل اعتماد نہیں ہوسکتا۔ کبھی بھی لاری اڈوں اور عوامی مقامات پر موجود ہوٹلوں سے گوشت یا چکن بھول کر بھی مت کھائیں ۔ پہلی کوشش تو یہی کریں کہ سفر میں کچھ نہ کھایا جائے لیکن اگر مجبوراً کچھ کھانا پڑ جائے تو فروٹ کھالیں یا پھر ہوٹل میں سبزی یا دال کھا لیں لیکن چکن اور گوشت کبھی مت کھائیں۔
ریڑھیوں اور ٹھیوں پرملنے والا چکن یا چکن سے بنی اشیاء کا موازنہ کیا جائے تو وہ انتہائی سستی ملتی ہیں ، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اتنی سستی کیوں۔۔۔؟؟؟
کچھ عرصہ قبل صرف ایک ہفتہ میں فوڈ اتھارٹی لاہور پولیس نے ساڑھے چھ ہزار کلو گرام مردہ چکن پکڑا اور کچھ سال قبل ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر خاتون عائشہ ممتاز نے فوڈ مافیا کے خلاف آپریشن کیا تو چند دن کے آپریشن کے بعد عجیب وغریب انکشاف ہوئے اور فوڈ کے نام پر ہمیں کیا گند کھلایا جا رہا تھا وہ سب نیوز چینل نے دکھایا ۔
لیکن کچھ ہی عرصہ میں سیاسی اثرورسوخ اور دباؤ کی وجہ سے عائشہ ممتاز کو کسی اور محکمے میں منتقل کر دیا گیا ۔
پولٹری کا باقاعدہ ایک گینگ ہے جن کا اثر رسوخ بڑے بڑے ہوٹلوں تک ہے۔ اسی طرح عام ٹھیلوں اور ریڑھیوں پر بکنے والے چکن سے بننے والی اشیاء کا حال بھی کچھ اسی طرح ہے۔ بازار میں بڑی مقدار والی چکن شاپس پر بھی زیادہ تر چکن بھی اسی کیٹاگری کا ہوتا ہے۔ یہ مافیا بہت طاقتور ہے۔ سیاسی طور پر ان کے بہت مضبوط تعلقات ہیں۔ پورے پاکستان کے پولٹری فارمز کے ساتھ ان کا لنک ہے۔
فارموں میں جو مرغیاں مر جاتی ہیں، بیمار ہوجاتی ہیں ان کی فوراً سپلائی کی جاتی ہے اور پھر یہ سارا مردہ گوشت ہوٹلوں میں پکتا ہے اور ریڑھیوں پر برگر شوارما میں یہی کچھ استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح بون لیس چکن کے نام پر مردہ بطخوں کا گوشت بھی سپلائی کیا جاتا ہےاور دیگر بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ بات کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے۔
اس لئے کبھی بھی پہلے سے ذبح کردہ مرغی کا گوشت مت خریدیں بلکہ مرغی کی دیکھ بحال کر کے اس کو اپنے سامنے ذبح کروائیں۔
کچھ سال قبل لاہور گارڈن ٹاؤن سبزی منڈی کے ساتھ گوشت مارکیٹ میں ایک شخص نے چکن کی دکان بنائی ۔ یہ تین سگے بھائی ہیں جن کے نور پورقصور میں اپنے پولٹری فارم ہیں۔ انہوں نے عہد کیا کہ لوگوں کو صحت مند اور صحیح گوشت کھلانا ہے ۔ انہوں نے طے کیا کہ اپنے پولٹری فارم کا چکن لائیں گے اور ہر کسٹمر کی آنکھوں کے سامنے اسے مرغی ذبح کر کے دیں گے۔ چند دن بعد ہی لوگوں نے دیکھا کہ ان کا بزنس خوب پھلنے پھولنے لگ گیا اور پھر ان بھائیوں نے گارڈن ٹاؤن کے بعد ماڈل ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن بازار میں بھی دکانیں بنا لیں ۔
لوگ ان سے اعتماد کے ساتھ چکن خریدتے ہیں کہ یہ کبھی پرانا یا رکھا ہوا گوشت نہیں فروخت کرتے۔ سامنے ذبح کر کے دیتے ہیں۔ ان کی کامیابی اور بزنس میں اٹھان کے بعد فوڈ مافیا نے پلان بنایا اور سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کے بزنس میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اور پھر سننے میں آیا کہ ایک دن ان کے فارم میں اچانک بیماری پھیلی اور ایک ہی وقت میں دو لاکھ مرغیاں مر گئی اور دکانیں بند کرنے کا نوٹس بھی مل گیا۔کیوں کہ ہمارے ملک میں ہر چیز کا مافیا ہے ۔ ہر بزنس اور کاروبار میں بڑے بڑے مگرمچھ بیٹھے ہیں۔ ان کے حکم پر ہی پورے ملک کا بزنس چلتا ہے۔
بہت سے لوگ خیرخواہی کے جذبے سے بزنس کرتے ہیں اور لوگوں کو خالص اشیاء دیتے ہیں ۔اپنے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ کی طرف سے خصوصی مدد و نصرت شاملِ حال ہوتی ہےاور زمانہ دیکھتا ہے کہ کس طرح وہ تھوڑے وقت میں کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔ اگر چکن یا گوشت کا بزنس بھی لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے کیا جائے تو یہ بہت بڑی خیرخواہی ہوگی اور برکت کے ساتھ ساتھ کامیابیاں بھی حاصل ہوں گی۔
ایک اہم ہدایت۔
چونکہ چکن کا بزنس سانس کے ساتھ وابستہ ہے کسی بھی وقت مرغی مر سکتی ہے ۔ اچانک بیمار ہوسکتی ہے جگہ کی تبدیلی کی وجہ سے بیمار ہوکر مر سکتی ہے یا موسم کی تغیر کی وجہ سے نقصان ہوسکتا ہے۔ چکن کا بزنس دو وجوہات سے رسکی ہے ۔ایک یہ کہ یہ سانس والا بزنس ہے۔ جب تک سانس ہے تومنافع ہے ۔سانس ختم تونقصان ہوگا ۔ دوسرا رسک یہ کہ اس کے روزانہ کے الگ ریٹ ہوتے ہیں۔ اگر مال بچ گیا تو دوسرے دن سستا خریدا ہوا چکن مہنگا ہوسکتا ہے اور مہنگا خریدا ہوا سستا بیچنا مجبوری ہوگی۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اتنا ہی چکن روزانہ اٹھایا جائے جو آسانی سے بک جائے اور دوسرے دن نیا لیا جائے۔
آئیڈیا۔
اگر اس بزنس کو چند دوست احباب مل کر کریں تو زیادہ فائدہ ہوگا ۔ مثلاً اگر کسی کے پاس انویسٹمنٹ ہے تو وہ پولٹری فارم بنائے اور اپنی دکانیں بنا کر اپنے فارم کا ہی گوشت بیچا جائے۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر کسی قابل اعتماد ڈیلر سے خریدا جائے اور صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھا جائے۔شہر کی ایسی جگہ پر دکان یا ٹھیلا لیا جائے جہاں رہائشی علاقہ ہو یا پھر سبزی منڈی وغیرہ کے قریب۔ چکن کے بزنس کے ساتھ عموماً سبزی کا بزنس بھی خوب چلتا ہے اور اکثر لوگ سبزی اور چکن کا بزنس ایک ساتھ کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اکثر چکن لینے والا سبزی بھی لیتا ہے اور سبزی والا چکن بھی لیتا ہے۔ چکن بزنس میں سب سے اہم چیز صفائی ستھرائی ہوتی ہے۔ اگر معیار کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ کسٹمر تک پھیلاؤ ہوگا اور بزنس خوب پھلے پھولے گا۔
منافع کی شرح۔
چکن میں ریٹس دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سلیٹ ریٹ ہوتا ہے جس پر مرغی بکتی ہے زندہ کا ریٹ الگ اور گوشت کا الگ اور دوسرا منڈی ریٹ ہوتا ہے ۔ سلیٹ ریٹ اور منڈی ریٹ میں 10 سے 20 روپے فی کلو کا فرق ہوتا ہے۔ اگر روزانہ ایک من مرغی بکے تو بارہ سو روپے یومیہ تک اس کا منافع ہے۔ اگر خالص گوشت بکے تو منافع کی شرح 15 سو سے 2000 ہے۔ چونکہ گوشت ، پنجے، پوٹہ، کلیجی، اور چکن الگ الگ بکتا ہے اور اس کے علاوہ مرغیوں کاملبہ بھی الگ سے بکتا ہے۔
اگر زندہ مرغی لی جائے تو دکاندار اس کے ساتھ پنجے نہیں دیتا حال آنکہ تول میں وہ مرغی کے ساتھ ہوتے ہیں مگر گوشت میں شامل نہیں اسی طرح (صافی)گوشت کی صورت میں پوٹہ کلیجی کا حساب الگ رہتا ہے۔مختصر یہ کہ اگر صفائی ستھرائی کے ساتھ معیاری کام کیا جائے تو 2 سے 3 ہزار روزانہ کا منافع کمایا جاسکتا ہے۔
فزیبلٹی:
چکن بزنس کے لئے درکار اشیاء:
ایک عدد دکان یا پھٹہ ۔ قیمت علاقہ کی مناسبت سے ہوگی لیکن اوسطاً بیس سے تیس ہزار سیٹنگ ،کرایہ وغیرہ۔
ایک عدد جنگلہ: بارہ ہزار سے پندرہ ہزار
دو عدد ڈرم۔ دو ہزار سے تین ہزار
ٹیبل یا ماربل سلیپ ۔ دس سے بیس ہزار تک
تولنے والاڈیجیٹل سکیل۔ تین سے چھ ہزار
چھری، ٹوکہ،فیڈبرتن وغیرہ۔ پندرہ سو سے دو ہزار
فیڈ اور دوائیاں وغیرہ۔ پانچ ہزار سے دس ہزار
یہ ایک رف اسٹیمیٹ ہے اس سے زیادہ کم بھی ہوسکتا ہے۔
اس بزنس کے لئے اوسطاً ایک لاکھ رقم درکار ہے۔
چکن ڈیلرز کے ساتھ بزنس کرنے کی ترتیب ڈاؤن پیمنٹ پر بھی ہوتی ہے کہ روزانہ چکن فروخت کر کےاس دن کی رقم منافع رکھ کر ڈیلر کو دی جائے اور دوسرے دن نیا سامان لیا جائے۔ لیکن ادھار کی صورت میں سلیٹ ریٹ 5،10 روپے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر نیا بزنس ہو تو شروع کے چند دن اتنی مقدار میں ہی چکن لیا جائے کہ آسانی سے بک جائے۔ جیسے جیسے شہرت ہوگی اور کام چلے گاتو آہستہ آہستہ اضافہ کیا جائے گا۔ ایک دم کبھی زیادہ مال اٹھانا مناسب نہیں کیوں کہ مرغی کو ایک دن رکھنے کا بھی خرچہ ہوتا ہے ۔اس کی خوراک وغیرہ اور فارمی مرغی روزانہ کے حساب سے اپنا وزن بڑھاتی ہے جو اضافی بوجھ بن سکتی ہے۔ اس لئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ روز روز کا حساب کیا جائے تاکہ نہ بوجھ رہے اور نہ زیادہ ٹیشن رہے۔
لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیک نیتی کے ساتھ خالص، ایمان دارانہ اور معیاری بزنس کرنے کا پلان کریں۔ ان شاء اللہ برکت، عزت اور کامیابی، یہ سب ایک ساتھ حاصل ہوں گے۔