شکاگو
بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی
تنگ و تیرا گلی میں کھڑا ہوں
فلک
اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے
زمیں
پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے
اور میں کھڑا سوچتا ہوں
کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں
کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے
اپنے سر کو بچاؤں