چھپ کر نہ رہ سکے نگہ اہل فن سے ہم
چھپ کر نہ رہ سکے نگہ اہل فن سے ہم
محفل میں جھانکتے ہیں نقاب سخن سے ہم
کم بخت ڈھونڈھتی ہے محبت میں فلسفہ
تنگ آ گئے ہیں عقل کے دیوانہ پن سے ہم
تلخیٔ زندگی میں بھی پانے لگے مٹھاس
عاجز ہیں اپنی فطرت کام و دہن سے ہم
پیدا کیا ہوا ہے ہمارا ہی سب فروغ
بیگانہ کچھ نہیں ہیں تری انجمن سے ہم
اے محو ناز اور نیا کوئی امتحاں
اکتا گئے ہیں بازئ دار و رسن سے ہم
اک ذرہ ہی سہی مگر اے آفتاب ناز
سجدے کرا رہے ہیں تری ہر کرن سے ہم
دیتے رہے فریب مناظر کے بت کدے
دیکھا کئے تجھے نگہ بت شکن سے ہم
اٹھنا ہمارا تھا کہ سبھوں کی نظر اٹھی
کچھ جیسے لے چلوں ہوں تری انجمن سے ہم
ابھرا نہیں ہے سادگئ گریہ کا مذاق
محفل یہ چاہتی ہے کہ روئیں بھی فن سے ہم