چھوٹی سی یہ بات سہی پر کھینچے ہے یہ طول میاں
چھوٹی سی یہ بات سہی پر کھینچے ہے یہ طول میاں
جیون بھر کا روگ بنے ہے دو آنکھوں کی بھول میاں
کانٹوں نے جو زخم لگائے وہ مانا بھر جائیں گے
ان زخموں کو کیسے بھرو گے جن کو لگائیں پھول میاں
سکھ ڈھونڈو گے دکھ پاؤ گے پریت کے بدلے جلتے آنسو
ریت یہی اس جگ کی پیارے اس جگ کا معمول میاں
پیار وفا کا چلن نہ ہو گر دل سے دل کو راہ نہ ہو
ایسی روش تو اس دنیا کو کر دے گی مجہول میاں
روپ کی دیوی رام نہ ہوگی چلہ کھینچو جوگ کرو
لاکھ لگاؤ تم آنکھوں سے ان چرنوں کی دھول میاں
سیدؔ جی کے گیت کبت سب سنتے ہیں سر دھنتے ہیں
پریم کتھا کے رسیا اک دن کھولیں گے اسکول میاں