چہرے پر ایک اور بھی چہرہ لگائیے
چہرے پر ایک اور بھی چہرہ لگائیے
دل چاہے رو رہا ہو مگر مسکرائیے
ایسا نہ ہو کہ اپنی ہی صورت پہ شک پڑے
اتنا بھی آئنے کو نہ منہ سے لگائیے
ہو فاصلہ تو اور بھی بڑھ جاتی ہے کشش
کچھ دور جا کے اور بھی نزدیک آئیے
کانٹوں سے میرے پھولوں کو نسبت نہیں کوئی
میں شاخ دل ہوں مجھ سے نہ دامن بچایئے
ممکن جو ہو سکے تو افق بن کے دوستو
اس آسماں کو آج زمیں سے ملائیے
جاویدؔ اپنے آپ کو سمجھیں گے اس طرح
اک مشت خاک لے کے ہوا میں اڑائیے