چین اور امریکہ میں تناؤ
پندرہ نومبر کو چین اور امریکی سربراہوں کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات کچھ نرم گرم سی رہی۔ ۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان تین گھنٹے کی ورچوئل میٹنگ احترام کے ساتھ شروع ہوئی، حتیٰ کہ دوستانہ بھی رہی، لیکن جلد ہی الزام تراشیوں اور درپردہ دھمکیوں میں بدل گئی۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ ان دو سرکردہ عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات بہت وسیع اور گہرے ہو چکے ہیں جو صرف سفارتی کوششوں کے ساتھ حل نہیں ہو پائیں گے۔ وہ تجارت ، سلامتی سے لے کر انسانی حقوق تک تقریباً ہر چیز پر اختلافات رکھتے ہیں، اور شاز ہی کوئی ایسی بات ہو گی جس پر وہ متفق ہوں۔
لیکن کچھ اختلافات، جیسے تائیوان کا مستقبل، بالکل بھڑکے ہوئے ہیں۔ تائیوان والے مسئلے پر ذرا سی لا پرواہی یا ناعاقبت اندیشی، دونوں طاقتوں کو براہ راست تصادم میں الجھا سکتی ہے۔ لیکن، اس شدید ترین خطرے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ ہر قیمت پر خود مختار جزیرے کو مین لینڈ کے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف، واشنگٹن چین کی فوجی دھمکیوں، تائیوان کو معاشی اور سفارتی بلیک میلنگ کے باوجود اسے پیچھے دھکیلنے کے لیے پرعزم ہے۔ گو کہ دونوں رہنماؤں نے "ایک چائنہ" پالیسی کے تناظر میں تائیوان کی حیثیت کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر باضابطہ طور پر عہد کیا ہے، لیکن سربراہی ملاقات میں دونوں نے اک دوجے کو تنبیہ کرتے ہوئے مضمرات سے خبردار کیا۔
صدر شی نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف امریکہ کو خبردار کیا، اور خبردار کیا کہ "جو بھی آگ سے کھیلے گا وہ جل جائے گا"۔ صدر بائیڈن، جنہوں نے ماضی میں بیجنگ کی کسی بھی جارحیت کے خلاف تائیوان کا دفاع کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس دوران، چین کو تائیوان کی حیثیت کو طاقت کے ذریعے تبدیل کرنے کے مضمرات کے خلاف خبردار کرتے رہے۔ گو کہ میری نظر میں ، امریکہ چین کو خبردار، فوجی سے زیادہ اقتصادی نقصان سے کر رہا تھا، لیکن بہر حال یہ دھمکی بھی کم نہیں۔
بس اسی طرح سربراہی اجلاس میں سلامتی، تجارت سے لے کر انسانی حقوق تک ہر چیز پر بحث ہوئی ، لیکن سب بے سود۔ تین گھنٹے کی اس سفارتی جنگ میں معاہدے کے بعد، آگے بڑھنے کے اصولوں کی وضاحت ہوئی اور بس۔ یہ بھی کوئی خلاف توقع نہیں تھا۔
تائیوان پر اختلاف، ہانگ کانگ اور شمالی کوریا پر اختلاف، ایک بڑے تصادم کی طرف اشارہ ہے، جو ایشیا بلکہ درحقیقت دنیا پر بالادستی قائم کرنے کے لیے ہے۔ یہ سب عوامل ہمیں ان حالات اور امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ سے موازنہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ہاں، میں اس طرح کی مشابہت کے نقصانات سے آگاہ ہوں۔ ، دونوں ادوار کے درمیان مماثلت اور فرق دونوں سے واقف ہوں، اور ہاں، میں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں کہ چین، سوویت یونین کے برعکس، مغربی قیادت میں بین الاقوامی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کسی متبادل عالمی نظریے کے ذریعے دنیا پر تسلط نہیں چاہتا۔ کم از کم ابھی تک کے حالات تو یہی بتاتے ہیں۔
لیکن دونوں حالات میں مماثلتیں غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں۔ کیونکہ، ایک ابھرتا ہوا چین، سوویت یونین کی طرح، عالمی نظام کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج کھڑا کرنا شروع کر رہا ہے۔ بائیڈن بھی امریکہ اور چین کے درمیان تنازع کو نظریاتی رنگ دے کر حالات کو تیار کر رہے ہیں۔ وہ اس تنازع کو (جمہوریت اور عامریت کے درمیان تصادمقرار دے کر لوگوں کو آزادی اور غلامی کے مابین چناؤ کرنے کا کہ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ) دونوں فریق اپنے اہداف کے حصول کے لیے کسی بڑے فوجی تصادم، یا تباہ کن "گرم جنگ" کے علاوہ، تمام ضروری وسائل کو بروئے کار لانے پر تلے ہیں۔
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ چین یقینی طور پر آج کے روس سے آگے نکل گیا ہے، جو اپنی پرانی شان و شوکت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صدر ولادی میر پوٹن مغرب کے ساتھ، اپنی شان و شوکت کی بحالی کے لیے کوئی بھی الٹا سیدھا کھیل سکتے ہیں۔ ، لیکن چینی حکمران مغرب کے کھیل کے اصولوں کو مکمل طور پر اپنے شرائط و ضوابط کے ساتھ لکھنے کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں،۔ ۔
چین کے طاقتور ترین شخص نے مغرب کے حکم نامے "بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر" کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ نئے عالمی نظام کے اصولوں کی مشترکہ تصنیف پر اصرار کرتے ہیں۔
یہ سب باتیں حالات کو بیسویں صدی میں دھکیلنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہاں تو سوویت یونین اپنی معیشت کی بدحالی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ لیکن چین وہیں کامیاب ہوا ہے جہاں سوویت یونین ناکام ہوا تھا۔ چین کی معیشت ناقابل یقین شرح سے پھیلتی جا رہی ہے اور تمام حالات اس کے موافق ہونے کی وجہ سے وہ اس دہائی میں امریکہ کی معیشت کو پیچھے چھوڑنے جا رہا ہے۔
چین ایک اسٹریٹجک بیانیے اور کرنسی کو بھی تیار کر رہا ہے جو اس کی اقتصادی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چین خود کو دیگر فرنٹس پر بھی تیار کر رہا ہے جس میں روایتی، بحری، ڈیجیٹل، خلائی اور جوہری فوجی طاقت بننا شامل ہے۔
چائنہ کی یہ کاوشیں اور اس کا امریکہ کے لیے خطرہ بننا، دنیا کو کہاں لے کر جا سکتا ہے، اس پر شدید غور کی ضرورت ہے۔
مترجم: فرقان احمد