چین اور امریکہ : دو سپر پاورز
جس طریقے سے چین نے پچھلی کچھ دہائیوں میں ترقی کی، اور سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اب کھڑا ہے، وہ واقعے ہی بہت غیر معمولی ہے۔ یہ کافی حد تک امریکہ کی انیسویں اور بیسویں صدی کا آئنہ دار سا محسوس ہوتا ہے۔ اس ترقی کا جائزہ لینے کے گو بہت سے پیمانے ہیں، اس کا جائزہ ہم امریکہ اور چین کے سو سالہ سفر کا مختصر ترین الفاظ میں جائزہ لے کر بھی کر سکتے ہیں۔ ، یہ جائزہ اس وقت سے ہو سکتا ہے جب سے امریکہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا اور چینی کمیونسٹ پارٹی پہلی بار 1921 میں قائم ہوئی۔
ان سو سالوں کے پہلے پچاس سالوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ چین انتشار، ٹوٹ پھوٹ، غیر ملکی قبضے اور خوفناک قحط کی اماج گاہ بنا رہا، جس سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ جب کہ امریکا نے اس دوران اپنے آپ کو عالمی سپر پاور کے طور پر مضبوط کیا اور پورے عالمی نظام پر اپنی اجارہ داری قائم کی، جو دنیا کی 40 سے 50 فیصد معیشت پر مشتمل تھی۔
لیکن پھر چین نے اگلے 50 سالوں کے دوران اپنی پالیسیاں بدلیں اور خود کو مستحکم کیا۔ چائنہ کے استحکام کا سفر، امریکہ کی جانب سے کمیونسٹ حکومت کو تسلیم کرنے اور مرحوم صدر رچرڈ نکسن کے 1972 میں تاریخی دورے کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ یہ دورہ کسی بھی امریکی صدر کا چین میں پہلا دورہ تھا۔
یہ دورہ تو ہوا، لیکن اگلے دس سال تک چین میں اس معاشی استحکام کا آغاز پھر بھی نہ ہوا جس پر آج ہم اسے گامزن دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر جب چین استحکام کی ڈگر پر چل نکلا تو پھر رکے نہ رکا۔
2001 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت نے چین کو "دنیا کی فیکٹری" کے طور پر عالمی شہرت دی۔ ۔ اگلے 20 سالوں میں، چینی معیشت امریکی معیشت کے 13 فیصد کے برابر سے اس سال 73 فیصد تک پہنچ گئی۔ پانچ گنا اضافہ کے اس عمل میں، اس نے کروڑوں چینیوں کو غربت سے نکالا۔
مزید برآں، 2013 کے ملٹی ٹریلین ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) نے، جو کہ 60 سے زائد ممالک پر محیط ہے، نے چین کی سٹریٹجک ، جغرافیائی اور سیاسی وسعت کو یقینی بنایا ہے۔ یہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قابل تجدید توانائی کی سرمایہ کاری 2020 تک بیلٹ اینڈ روڈ انیشایٹو پروجیکٹ توانائی کی کل سرمایہ کاری کی 57 فیصد کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
2000 میں، امریکہ کو توقع تھی کہ چین کی WTO میں رکنیت سے سستی درآمدی اشیا اور چینی حکومت کی اعتدال پسندی اور جمہوریت ہوگی، لیکن آخر کار، چین کو رکنیت دلوانے سے امریکہ کو $300bn کا سالانہ تجارتی خسارہ ہوا اور کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
پچھلی دو دہائیوں میں چین نے جہاں برق رفتار ترقی دکھائی، وہیں امریکہ کی طاقت گزشتہ 20 سالوں میں پگھلتی رہی ۔ اس کا آغاز افغانستان، عراق اور عظیم مشرق وسطیٰ میں اس کی جنگوں کی شکستوں سے ہوا اور 2008 کے مالیاتی بحران اور ٹرمپ کی تباہ کن صدارت نے آخری کیل ٹھوک دیا۔ اس دوران امریکہ نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان بہت کچھ کھویا۔ اس کے اثاثہ جات ، ساکھ اور اثر و رسوخ سب داؤ پر لگےہیں۔
اس دوران ، عالمی معیشت میں امریکہ کا حصہ تقریباً نصف سے 22 فیصد تک کم ہو گیا۔
اپنی حالیہ ورچول ملاقات میں، بائیڈن، نے ژی پر زور دیا کہ وہ چین اور امریکہ کے درمیان مقابلے کو تنازع کی طرف نہ دکھیلیں۔ انہوں نے کہا کہ سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد ژی کو احتیاط سے چلنا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دنیا میں امن کی فذا قائم رہے۔ نہیں تو امریکہ کے پاس ضروری جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ موجود ہے کہ وہ ایک جنگجو چین کو ایشیا اور اس سے آگے جارحانہ اقدام کرنے سے روک سکے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بائیڈن کا یہ لب و لحجہ بپھرے ہوئے جنگلی جانور کا غماز ہے اور وہ اپنے ملک کے اندر اور باہر کے خلافشار سے پریشان نظر آتے ہیں۔ لیکن، یہ چینی رہنما، جو آج کل انتہائی پراعتماد محسوس کر رہے ہیں، پر فرض ہے کہ وہ ناخوشگوار ذرائع یا غیر ضروری دھمکیوں کا سہارا لینے سے گریز کریں جو خطرناک نتائج کے ساتھ ایک بڑے تصادم کی شکل اختیار کر لیں۔ کیونکہ امریکہ کے پاس بہر حال ابھی بھی وہ طاقت موجود ہے کہ وہ چین سمیت دنیا بھر کے امن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے، ہر چیز کو تہ وبالا کر دے۔
دنیا کی بھلائی، درحقیقت اس کی بقا، اس پر منحصر ہے کہ چین اور امریکہ دونوں ہوش کے ناخن لیں۔ نہ امریکہ اپنی گراوٹ کی شکار معیشت دیکھ کر کسی تصادم کی طرف بڑھے اور نہ چین اپنے آپ کو غیر معمولی طور پر مضبوط سمجھتے ہوئے بد مست ہاتھی کی طرح دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنے۔