بڑی طاقتیں کمزور قوموں کا استحصال کیسے کرتی ہیں؟ چیچنیا سے یوکرین تک کی کہانی
چیچنیا کے مسلمان فوجیوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ یوکرائن میں روسی افواج کے شانہ بشانہ موجود ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ نیوز نیٹ ورک الجزیرہ نے اسی پس منظر میں ایک چیچن بلاگر عبدالرحمانوف کا انٹرویو کیا ہے، جو 2016 میں رمضان قادرو پر تنقید کرنے کی پاداش میں ملک بدر کیے گئے تھے۔ یہ انٹرویو اٹھائیس مارچ کو شائع ہوا تھا۔ یہاں اسی کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔عبدالرحمانوف نے دونوں چیچن جنگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جن میں چیچنیا کے مسلمانوں پر قیامت بیت گئی تھی۔ اب یہ اسی پیوٹن کے ہاتھوں یوکرائن کے لوگوں پر ستم دیکھ رہے ہیں۔آئیے ہم انٹر ویو کی جانب چلتے ہیں۔
سوال: کیا آپ یوکرائن پر اس بڑے پیمانے پر حملے کی امید کر رہے تھے؟
جواب: آخری وقت تک امید تھی کہ پیوٹن یورپ کے مرکز میں جنگ نہیں چھیڑیں گے ، یعنی سب کا خیال تھا کہ وہ پورے یوکرائن پر قبضہ نہیں کریں گے ۔ وہ ایسا کہہ کر صرف ڈرا رہے ہیں۔ جب انہوں نے چوبیس فروری کی صبح حملے کا اعلان کیا تو باقی سب کی طرح میرے لیے بھی یہ غیر متوقع تھا۔
سوال: آپ کے خیال میں اس جنگ کا مقصد کیا ہے؟
جواب: پیوٹن سوویت یونین کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ اس مقصد کو چھپا نہیں سکتے۔ وہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کو المیہ سمجھتے ہیں۔ یہ باتیں کہ روس نے پھیلتے ہوئے نیٹو کو دیکھ کر حملہ کیا کہ اگر یوکرائن نیٹو کا ممبر بن گیا تو راکٹ روس کے نزدیک ہی نصب ہو جائیں گے، بالکل ہی احمقانہ باتیں ہیں۔ لتھوینیا، لیٹویا اور اسوڈونیا پہلے ہی نیٹو ممبر ہیں۔ اگر ان میں راکٹ نصب کر کے روس پر مارے جائیں تو وہ اتنا ہی وقت لیں گے روس پہنچنے میں جتنا یوکرائن میں۔ یہ کہنا کہ روس نے حفاظتی ضرورتوں کے مدنظر حملہ کیا، صرف جارحیت کو زبان دینے والی بات ہے۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جس روسی امپیریلازم کی آپ نے بات کی، یہ روسی معاشرے میں مقبول ہے؟
جواب: جی ہاں۔ یہ بات روس میں خاصی مقبول ہے۔ عظیم ہونے کا تصور کہ ہمارا پھیلاؤ تو لازمی ہو کر رہے گا۔ اسی لیے ہم سے سب خوفزدہ ہیں۔ ہم سب سے طاقتور ہیں۔ ہم نے تمام جنگیں جیتی ہیں۔ ہم سب سے پہلے خلا میں پہنچے تھے۔ یہ خیالات بہت حد تک روسی انٹیلجنشیا کے نہیں ہیں، لیکن یہ کم پڑھے لکھے لوگوں میں خاصے مقبول ہیں۔ وہاں تو رسازم نامی اصطلاح بھی موجود ہے، جو کہ فسطائیت یا فاشزم سے نکلی ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ سب پراپیگنڈہ کی وجہ سے ہے۔
سوال: جب سے جنگ چھڑی ہے، بعض مبصرین کہتے ہیں کہ یوکرائن دوسرا چیچنیا ہوگا۔ کیو دوسرا گروزنی ہوگا۔ آپ اس موازنے پر کیا خیال رکھتے ہیں؟
جواب: میں ابھی تو کیو کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ لیکن ہاں، جنگ کے دوران ماریاپول اور کیو ضرور گروزنی کی طرح دکھ رہے ہیں۔ ایسا تو لازمی ہونا تھا۔ کیونکہ پیوٹن نےتیزی سے قبضے میں ناکامی کے بعد پلان بی پر عمل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ لہٰذا اب وہ یوکرائنی زمینیں جلا رہے ہیں، شہروں کو تباہ کر رہے ہیں اور پر امن شہریوں کو مار رہے ہیں، تاکہ یوکرائنی تھک کر ہار قبول کر لیں۔
سوال: کیا آپ دونوں چیچن جنگوں کے دوران گروزنی میں موجود تھے؟
جواب: جی ہاں، دونوں دفعہ۔ جب پہلا حملہ ہوا تھا، تب میں نو سال کا بچہ تھا۔ چھبیس نومبر 1994، کو باقاعدہ جنگ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے، میں نے پہلی دفعہ روسی ٹینکوں کو تباہ ہوئے دیکھا اور روسی فوجیوں کی لاشوں کو بھی۔ لوگوں نے ایک چوراہے پر ان فوجیوں کے اعضا جمع کر کے رکھے تھے۔ یہ ایک خوفناک منظر تھا۔ بطور بچہ یہ میری نفسیات پر بہت بڑا اثر تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جنگ ہونے والی ہے۔ پھر دسمبر گیارہ کو آپریشن کانسیٹیوشن شروع ہو گیا۔ روسی ہمیشہ جنگ کو آپریشن ہی کہتے ہیں۔ اگر میں نے پہلی جنگ میں کچھ محسوس نہیں کیا تھا تو دوسری جنگ میں تو واقعی محسوس کیا تھا۔ میں خوفزدہ تھا۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے گروزنی کی مرکزی مارکیٹ پر بمباری کی تھی اور 150 افراد مارے گئے تھے۔ میں اس کے ایک دن بعد وہاں گیا تھا اور منظر بہت ہی ہلا دینے والا تھا۔ اس وقت لوگ وہاں سے لاشیں لے جا چکے تھے لیکن وہاں خون ہر طرف بکھرا تھا۔ خالی گلیا ں تھیں، ٹوٹی کھڑکیا تھیں اور ایک قاتل خاموشی تھی۔
سوال: یوکرائن جنگ کی تصاویر اور فوٹیجز دیکھ کر کیا آپ کی چیچنیا کی جنگ کی یاد تازہ ہوتی ہے؟
جواب: جب میں ان روسی فوجیوں جن میں چیچن سپاہی بھی شامل ہیں، کو بکتر بند گاڑیوں پر سوار یوکرائنی گلیوں سے گزرتا دیکھتا ہوں تو مجھے گروزنی میں روسی ٹینک یاد آتے ہیں، جو ہم نے بچپن میں دیکھے تھے۔ جب شہر پر قبضہ تھا، تو ہم بچے روسی فوجیوں کو جا جا کر شہادت کی انگلی دکھایا کرتے تھے۔ یہ ہمارا ایک طرح کا احتجاج کا طریقہ تھا، جس سے ہم نفرت کا بھی اظہار کیا کرتے تھے۔ لیکن اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں روسی فوجی (اتنی نفرت دیکھنے کے بعد) دوبارہ یوکرائن میں گھس آئے ہیں اور ان میں وہ چیچن بھی شامل ہیں جنہوں نے خود یا ان کے والدین نے چیچنیا میں اس قسم کے مناظر دیکھے تھے۔ اب یہ یوکرائنی جنگ میں شامل ہیں اور یوکرائینیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی دل خراش ہے۔
یوکرائینی جنگ کی شروع شروع کی کوریج میں چیچنیا پر بہت ہی زور دیا جا رہا تھا۔ ایسا تاثر ملتا تھا کہ یوکرائن سے روسی نہیں چیچن لڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھنا بہت ہی برا تھا کہ کیسے چیچنیا کو پیوٹن کی جارحیت سے جوڑا جا رہا ہے۔ مغربی نگاہ ہماری سیاست نہیں سمجھ سکتی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمارے ہاں تو خود جنگ جاری ہے۔ ہم تو خود قبضے تلے جی رہے ہیں۔ قادروف ایک چیچن صدر نہیں ہیں، بلکہ ایک بیوروکریٹ ہیں جنہیں کریملن نے تعینات کیا ہے۔ چیچن لوگ تو خود ان کے خلاف آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ خیر بعد میں اس قسم کی کوریج ختم ہو گئی اور یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
سوال: آپ کے خیال میں کیا چیچن جنگوں اور موجودہ یوکرائنی جنگ میں کوئی فرق ہے؟
جواب: یوکرائنی جنگ کی جو تصویر نظر آ رہی ہے وہ مختلف ہے، بلکہ یوں کہیں کہ مثبت ہے۔ یوکرائنی فوج طاقتور ہے اور بہت سخت مزاحمت کر رہی ہے۔ لیکن ہمارے پاس تو کچھ نہیں تھا جس سے ہم فضائی حملوں کا دفاع کر پاتے۔ ہمارے پاس تو سوائے چھپ جانے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن یوکرائنی (فضائی حملوں کے وقت) چھپ نہیں رہے۔ وہ جنگی طیارے گرانے کے قابل ہیں۔ ہمیں ایک بلا کا سامنا تھا جس سے لڑنے کے لیے ہمارے پاس وسائل موجود نہیں تھے۔ جو کچھ تھوڑے بہت ہتھیار ہمارے پاس تھے وہ یا تو روس سے لیے ہوئے تھے یا اسی سے خریدے ہوئے تھے۔ نہ تو ہمارے پاس پیادہ فوج تھی اور نہ ہی بکتر بند گاڑیاں۔ اجتماعی طور پر مدد کا بھی بہت فرق تھا۔ دنیا میں کوئی نہیں تھا جس نے ہمارا ساتھ دیا۔
سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کا اسلاموفوبیا سے کوئی تعلق ہے؟
جواب: میں ایسا کہہ نہیں سکتا، کیونکہ نہ تو مغرب سے ہمارا ساتھ کوئی دے رہا تھا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ سے کوئی مسلمان ملک۔ ہمارے لیے کہیں سے بھی کوئی ساتھ موجود نہیں تھا۔ مسئلہ دراصل روس کو سمجھنے میں تھا۔ پیوٹن اس وقت ایک اچھا لیڈر سمجھا جاتا تھا جو کہ قہقاف کے علاقے میں دہشت گردی سے لڑ رہا تھا۔ہم نے خود بھی کچھ غلطیاں کی تھیں لیکن دنیا میں کوئی ہماری آواز نہیں سن رہا تھا۔ ہمیں دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھا جا رہا تھا۔ آج دنیا سمجھ رہی ہے کہ پیوٹن کو چیچنیا میں روکنا چاہیے تھا۔
سوال: آپ کے خیال میں یوکرائن میں جنگ کیسے ختم ہوگی؟
جواب: اب چونکہ روس نے پوری طرح حملہ کر دیا ہےتو یا اب اسے جیتنا ہوگا اور یا پھر اسے ہرانا ہوگا۔ ظاہر ہے ہار سے بچنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرے گا۔ لیکن اگر یوکرائنی اسی طرح لڑتے رہے اور ان کی عالمی مدد جاری رہی تو میرا خیال ہے کے وہ سخت مزاحمت کریں گے بلکہ جوابی حملے بھی کر پائیں گے۔ مجموعی طور پر اس وقت نتیجہ نکالنا بہت ہی مشکل ہے۔
(نوٹ: اس انٹرویو میں دیے گئے خیالات بلاگر کے اپنے ہیں، ادارے کا ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)