چشم بد مست کو پھر شیوۂ دلداری دے

چشم بد مست کو پھر شیوۂ دلداری دے
دل آوارہ کو پیغام گرفتاری دے


عشق ہے سادہ و معصوم اسے اپنی طرح
جوہر تیغ ادا خنجر عیاری دے


جو دکھے دل ہیں انہیں دولت درماں ہو عطا
درد کے ہاتھ میں مت کاسۂ ناداری دے


کتنی فرسودہ ہے یہ جرم و سزا کی دنیا
سرکشی دل کو نیا ذوق گنہ گاری دے


شاخ گل کب سے ہے سینے میں چھپائے ہوئے گل
دیکھیں کب باد صبا حکم چمن کاری دے


اے مرے شعلۂ دل شعلۂ شعر و دانش
رات آخر ہے اسے جشن شرر باری دے


چمن افسردہ ہے اے جان چمن روح بہار
گل کو بھی اپنے تبسم کی فسوں کاری دے