چشم مست ساقی سے دل ہوا خراب آباد
چشم مست ساقی سے دل ہوا خراب آباد
مے کدہ ہے اور مستی اب تو ہرچہ بادا باد
مل ملا کے دونوں نے دل کو کر دیا برباد
حسن نے کیا بے خود عشق نے کیا آزاد
میرا ٹوٹا پھوٹا دل بن گیا وطن اس کا
بے وطن تھا آوارہ عشق خانما برباد
مستیٔ انا لیلیٰ کار عشق مجنوں ہے
کیف وصل شیریں ہے نقش تیشۂ فرہاد
جسم و جان کا الحاق وجہ رنج و راحت ہے
بند شادی و غم سے جان پاک ہے آزاد
شوق اور تنفر میں راز اس کا پنہاں ہے
ہے کوئی اگر دلگیر ہے اگر کوئی دل شاد
غفلت اور نادانی وجہ شوق و نفرت ہے
ہے جو عین عرفاں میں بے ثبات و بے بنیاد
بند رنج و راحت سے فکر شوق و نفرت سے
قید جہل و غفلت سے خود شناس ہے آزاد
جلوہ اس کا اے ساحرؔ چشم پاک بیں سے دیکھ
حسن لایزالی سے شش جہات ہیں آباد