چند کلمے بیانیہ کے بیان میں
ممتاز شیریں نے اپنا بےمثال مضمون ’’تکنیک کا تنوع، ناول اور افسانے میں‘‘ یوں شروع کیا تھا، ’’اردو کے اچھے افسانوں میں یوں ہی چند چن لیجئے، ’آنندی‘، ’حرا م جادی‘، ’ہماری گلی‘، ’شکوہ شکایت۔‘ یہ کس تکنیک میں لکھے گئے ہیں؟ بیانیہ۔ ٹھیک! ان میں مکالمے سے زیادہ کام نہیں لیا گیا۔۔۔ ان میں داستان بیان کی گئی ہے۔ خود مصنف کی زبانی یا مصنف کسی کردار کو بیان کرنے کے لیے آگے کر دیتا ہے۔‘‘
ممتاز شیریں کا یہ مضمون ہماری بہت بااثر تنقیدی نگارشات میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کی تحریر کو آج کم وبیش چالیس برس ہو رہے ہیں لیکن اس میں جو رائیں اور فیصلے درج کئے گئے ہیں، ان کو آج بھی اعتبار حاصل ہے۔ ممتاز شیریں کی مندرجہ بالا عبارت سے نتیجہ نکلتا ہے کہ بیانیہ تکنیک وہ تکنیک ہے جس میں کوئی شخص (افسانہ نگار یا کوئی کردار) کوئی افسانہ بیان کرتا ہے یا پھر جس میں افسانے کو کسی ایک کردار کے نقطۂ نظر سے اور صرف اس کے شعور واحساس کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ اسی مضمون میں آگے چل کر ممتاز شیریں کہتی ہیں، ’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں۔ ہم بیانیہ کو بقول عسکری ’’کہانیہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ یہاں ممتاز شیریں (یا محمدحسن عسکری اور ان کے اتباع میں ممتاز شیریں) ’’بیانیہ‘‘ سے وہ چیز مراد لیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جسے روسی ہیئت پرست نقادوں، خاص کر بورس آئخن بام (Boris Eixenbaum) نے Sujet یعنی قصۂ مروی کا نام دیا تھا۔ قصۂ مروی سے اس کی مراد تھی واقعات، اور ان کی وہ ترتیب، جس ترتیب سے وہ قاری تک پہنچتے ہیں۔ Sujet یعنی قصۂ مروی کے متقابل شے کو آئخن بام نے Fabula یعنی قصۂ مطلق کا نام دیا تھا۔ قصۂ مطلق سے اس کی مراد تھی وہ تمام ممکن واقعات جو کسی بیانیہ میں ہو سکتے تھے، لیکن جن میں سے چند کو منتخب کرکے بیانیہ کرکے بیانیہ مرتب کیا جائے۔بیانیہ کے بارے میں ممتاز شیریں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے زیر اثر ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بیانیہ دراصل افسانے (Fiction) کا دوسرا نام ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ بیانیہ سے مراد ہر وہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ (event) یا واقعات بیان کیے جائیں۔ اب میں یہاں واقعہ یعنی event کی تعریف اور اس پر بحث کا آغاز نہیں کرنا چاہتا۔ ہالینڈ کی ایک جدید خاتون نقاد میکہ بال (Mieke Bal) نے اپنی کتاب Narratology میں اس پر عمدہ بحث لکھی ہے۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیل حال کا ذکر ہو، eventیعنی واقعہ کہا جائےگا، مثلاً حسب ذیل بیانات میں واقعہ بیان ہوا ہے۔الف(۱) اس نے دروازہ کھول دیا۔(۲) دروازہ کھلتے ہی کتا اندر آ گیا۔(۳) کتا اس کو کاٹنے دوڑا۔(۴) وہ کمرے کے باہر نکل گیا۔ان کے برخلاف مندرجہ ذیل بیانات کو واقعہ یعنی event نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ان میں کوئی تبدیل حال نہیں ہے۔ب(۱) کتے بھونکتے ہیں۔(۲) انسان کتو ں سے ڈرتا ہے۔(۳) ہر کتے کے جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔(۴) کتے کے نوک دار دانتوں کو دندان کلبی کہا جاتا ہے۔ممکن ہے کہ مندرجہ بالا بیانات (یعنی ’’ب‘‘) ان بیانات سے زیادہ دلچسپ ہوں جو ’’الف‘‘ میں درج ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم انھیں بیانیہ نہیں کہہ سکتے۔ اس مختصر بحث سے بھی آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بیانیہ صرف افسانے یعنی Fiction تک محدود نہیں، مثلاً بیانیہ کی مندرجہ ذیل شکلوں پر غور کیجئے۔ یہ سب کی سب غیرافسانوی ہیں، (۱) اخبار کی رپورٹ (یہ بات دلچسپ ہے کہ اخباری رپورٹ کا اصطلاحی نام Story ہے۔) (۲) ریڈیو پر کسی میچ یا کسی جلسے یا وقوعے کا آنکھوں دیکھا حال۔ (۳) تاریخ (History) (۴) ایسا خط جس میں کوئی واقعہ یا واقعات بیان ہوں۔ (۵) سفرنامہ۔ (۶) سوانح عمری۔ (۷) خود نوشت سوانح عمری وغیرہ۔ملحوظ رہے کہ بیانیہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں جو واقعات بیان ہوں وہ لامحالہ فرضی ہوں۔ اگر یہ شرط عائد کی جائے تو مندرجہ بالا سات قسم کی تحریریں تو کجا، بہت سے ناول اور افسانے بھی بیانیہ کی سرحد سے باہر ٹھہریں گے۔ اس کے علاوہ ان افسانوں اور ناولوں کا کیا ہوگا جن میں جھوٹ سچ اس طرح ملاکر پیش کیا جاتا ہے کہ جھوٹ اور سچ کی تفریق ناممکن ہوتی ہے؟ پھر وہ واقعات اور قصے بھی ہیں جو مذہبی کتابوں میں مذکور ہیں اور جن کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ سر تا سر سچ ہیں، لہٰذا بیانیہ محض واقعات پر مبنی ہوتا ہے، عام اس سے کہ وہ واقعات فرضی ہیں یا حقیقی۔ان باتوں کی روشنی میں اب یہ نکتہ بھی غور کے قابل ہے کہ اظہار کے وہ طریقے جن میں واقعہ بیان نہیں ہوتا، بلکہ واقعے کو آپ کے سامنے پیش کیا جاتاہے، ان کو بیانیہ کہا جائےگا یا نہیں؟ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اسالیب پر غور کریں،(۱) فلم۔(۲) ڈراما۔(۳) رقص، خاص کر وہ رقص جس میں واقعات ہوتے ہیں، مثلاً کتھا کلی اور بیلے۔(۴) فلم کو بھی کم سے کم تین انواع میں تقسیم کر سکتے ہیں،(۴/۱) ایسی کوئی فلم جس میں باقاعدہ کوئی پلاٹ ہو یعنی فیچر فلم۔(۴/۲) ایسی فلم جس میں کوئی پلاٹ نہ ہو لیکن واقعات ہوں اور ساتھ میں زبانی بیان (commentary) ہو، یا نہ ہو۔ اخباری فلم (Documentary)(۴/۳) ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے والا کوئی منظریا واقعہ، جس کے ساتھ زبانی بیان بھی ہو مثلاً کرکٹ یا فٹبال کا میچ، یاکوئی حادثہ، کوئی جلسہ وغیرہ۔ظاہر ہے کہ ان تینوں میں بیانیہ کا عنصر موجود ہے، بعض میں کم تو بعض میں زیادہ۔ فیچر فلم میں بیانیہ کا عنصر بہت کم معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ فلم میں بھی بہت سے واقعات دکھائے نہیں جاتے، بلکہ زبانی (مکالمے کے ذریعہ یا بآواز بلند پڑھے ہوئے خط کے ذریعہ وغیرہ) بیان کئے جاتے ہیں۔ یہی حال ڈراما کا ہے۔ رقص کا معاملہ یہ ہے کہ اکثر رقص میں الفاظ نہیں ہوتے، لیکن واقعہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف آپیرا میں رقص اور لفظ دونوں ہوتے ہیں۔یہ بات میں نے گذشتہ ڈھائی تین دہائیوں میں کئی بار کہی ہے کہ شاعری، خاص کر غزل کی شاعری یا وہ شاعری جسے Lyrical کہا جا سکتا ہے، اس طرح کی بھی ممکن ہے کہ اس میں کوئی واقعہ نہ بیان ہوا ہو۔ یعنی اس میں صرف کوئی تاثر، کوئی فوری مشاہدہ یا کسی جذبے کا بیان یا اس کی طرف اشارہ ہو۔ اس طرح کی شاعری میں کوئی واقعہ بیان نہیں ہوتا، لہٰذا اس میں معنی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور علیٰ ہذا القیاس ایسی تحریر میں تجرباتی انداز بخوبی نبھایا جا سکتا ہے، کیونکہ اس میں جو کچھ کہا، یا بقول رومن یاکبسن (Roman Jakobson) ’’بھیجا‘‘ جاتا ہے، اسے وقت کے کسی دائرے یا چوکھٹے میں رکھے بغیر ہی کام چل جاتا ہے۔رابرٹ ساؤتھی (Robert Southey, 1774۔ 1843) کی مشہور نظم جس میں ایک تیز رفتار چشمۂ آب کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اسی طرح کے تجربے کا حکم رکھتی ہے۔ شروع میں چند سرسری بیانیہ مصرعے ہیں، اس کے بعد صرف پانی کا منظر ہے کہ بہہ رہا ہے اور نگاہوں کے سامنے کم وبیش موجود بھی ہے۔ منظر بدلتا نہیں لیکن تبدیلی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ غرض دیکھیے اب یہ پانی چلا۔ اس پورے حصے میں کوئی جملہ نہیں، سب میں افعال ناقص رکھے گئے ہیں،اچھلتا ہوا اور ابلتا ہوااکڑتا ہوا اور مچلتا ہوایہ بنتا ہوا اور وہ تنتا ہواٹپکتا ہوا اور چھنتا ہواروانی میں اک شور کرتا ہوارکاوٹ میں اک زور کرتا ہوااب اس کے بعد ایک بیانیہ شعر آ پڑا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے حذف بھی کر سکتے تھے،پہاڑوں کے روزن زمیں کے مسامیہ ہے کہ رہا ہر طرف اپنا کامادھر پھولتا اور پچکتا ادھررخ اس سمت کرتا کھسکتا ادھرپہاڑوں پہ سر کو پٹکتا ہواچٹانوں پہ دامن جھٹکتا ہواوہ پہلوئے ساحل دباتا ہوایہ سبزے پہ چادر بچھاتا ہواوہ جل تھل کا عالم رچاتا ہواوہ گاتا ہوا اور بجاتا ہوایہ لہروں کو ہر دم نچاتا ہوااسی طرز وقماش کے تیئس شعر ابھی نظم میں اور ہیں۔ اس طرح کی نظم، جسے بیانیہ نہیں کہہ سکتے، میری بات کو شاید واضح کرتی ہے کہ بہت سی شاعری ایسی ہوتی ہے جس میں کچھ واقع نہیں ہوتا، لہٰذا اس میں آغاز، وسط اور اختتام کا جھگڑا نہیں ہوتا۔ بیانیہ رک نہیں سکتا، ختم ہو سکتا ہے۔ غزل کا شعر یا غزل کی کیفیت والی نظم، بس رک جاتی ہے۔ اسے اختتام کی ضرورت نہیں۔ امریکی نقاد برابرا ہر نسٹائن اسمتھ (Barbara Hernstein Smith) نے نظم کی شعریات میں اختتام کے مسئلے پر بہت کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ فون کی گھنٹی بند ہو جاتی ہے یا رک جاتی ہے لیکن نظم رکتی نہیں، اختتام کو پہنچتی ہے۔ میں اس کی بات سے اتفاق نہیں کرتا اور کہتا ہوں کہ بہت سی شاعری ایسی ہوتی ہے جس کا ٹھہر جانا کافی ہوتا ہے، کیونکہ جب اس میں کچھ واقع ہی نہیں ہوتا تو اس میں آغاز کی کیفیت وہ نہ ہوگی جو کسی بیانیہ میں ہوتی ہے اور جب آغاز نہ ہوگا تو انجام یا اختتام بھی غیرضروری ہوگا۔ آخر ہائیکو، تنکا (Tanaka) وغیرہ میں یہی تو ہوتا ہے۔ ایک دو مثالیں جاپان کی مشہور قدیمی بیاض ’’من یوشو‘‘ (Manyoshou) میں مشمولہ تنکاؤں سے حاضر کرتا ہوں (ترجمہ محمد رئیس علوی)،جب ہم دونوں ساتھ تھے پھر بھیکوہ خزاں کو کرنا پاربہت مشکل تھااب تو میرا بھائی اکیلاکیسے ان کو پار کرےگاپہاڑی پر کھڑا تھاپیڑ کے نیچےتمہارا منتظرشبنم کے قطروں نےمیرے کپڑے بھگوئے ہیںناکایا ماکوہ کے اوپر ہے شورکوئلوں کا جھنڈ یا ماتو کی اورجا رہا ہےگا رہا ہےزور زورہائیکو میں تو اس سے بھی کم ’’کچھ واقع ہونے‘‘ کا عنصر ہوتا ہے۔ ایک کا ترجمہ انگریزی سے پیش کرتا ہوں۔ (میں نے ترجمے میں سترہ سالموں کی قید نہیں رکھی ہے۔) میں نے چاند کو انگلیوں میںاٹھا کر بالٹی میں گرایا۔۔۔ اوراسے گھاس پر چھلکا دیااس طرح کی نظموں میں بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو نظم کے شروع ہونے کے پہلے اور ختم ہونے کے بعد ہواہو، لیکن ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اکثر غزل کے شعر میں بھی تو ایسا ہوتا ہے۔ غزل کا شعر سن کر یا پڑھ کر ہم یہ نہیں پوچھتے، ’’پھر کیاہوا؟‘‘ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال ہر بیانیے کے لیے بامعنی ہوتا ہے، لہٰذا بیانیہ اس معنی میں وقت میں قید ہے کہ اس کا وجود ہی وقت پر منحصر ہے اور شعر کے لیے ایسا لازمی نہیں۔دوسری بات جس کا اعادہ میں نے اکثر کیا ہے، لیکن یاروں نے جوش مخالفت میں اس پر توجہ نہیں کی، یہ ہے کہ جب بیانیہ فکشن واقعات کو زمان کے چوکھٹے میں رکھ کر پیش کرتاہے تو لامحالہ اس میں یہ صلاحیت ہوگی (یا پیدا ہو جائےگی) کہ مختلف زمانوں میں واقع ہونے والے واقعات کے درمیان ربط دریافت کرے اور جب ربط دریافت کرنے کی مہم ہوگی تو کردار نگاری اور واقعات کی ترتیب کے نئے امکانات سامنے آئیں گے اور ان نئے امکانات کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ ان میں انسانی نفسیات، مزاج، تقدیر اور کسی بھی کردار کے ذہنی کوائف نہایت نزاکت اور گہرائی کے ساتھ بیان ہو سکیں گے۔ یہ وصف ایسا ہے جس سے شاعری، خاص کر اس طرح کی شاعری جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، یکسر محروم ہے۔اس کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اگر ہم بیانیہ کی تعریف کو محض ان روشوں تک محدود رکھیں جن میں تمام تر بیش از بیش تر الفاظ کا استعمال ہوتا ہے (یعنی جس میں صرف بتایا جاتا ہے، دکھایا نہیں جاتا) تو بھی ہمیں بیانیہ کی دنیا بہت وسیع معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرغزل کا شعر ہے کہ جس میں کبھی کبھی کوئی واقعہ بھی بیان ہوتا ہے۔ لیکن بعض ایسے شعروں میں بھی، جن میں بظاہر کوئی واقعہ نہیں بیان ہوتا، ہمیں کوئی نہ کوئی متکلم (موجود یا غائب، لیکن اپنے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہوا) صاف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ غزل کے شعر کا متکلم خود اس کا شاعر ہی ہوتا ہے (جیسا کہ عندلیب شادانی جیسے بعض لوگ سمجھتے تھے اور شاید اب بھی سمجھتے ہوں۔) اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھی غزل کے شعر میں بھی بیانیہ کی کارفرمائی درانداز ہو سکتی ہے۔ مثال کے طورپر، ایسا نہیں (مثلاً) مندرجہ ذیل شعر میں شاعر اور متکلم ایک ہی شخص ہے،زندگانی تو ہر طرح کاٹیمر کے پھر جیونا قیامت ہےیعنی اس شعر کا خالق تو شاہ مبارک آبرو نام کا ایک شخص ہے، لیکن اس کلام کی وہی حیثیت نہیں جو مثال کے طور پر، اس بات کی ہوتی کہ شاہ مبارک آبرو اپنی بیوی سے کہتے کہ نیک بخت ذرا روٹیاں ڈال دے، بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ یعنی شاعر کی تاریخی حیثیت اور اس کے شعر کا متکلم لامحالہ متحد نہیں ہوتے۔ ہو بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے دلیل شعر سے نہیں، کہیں اور سے لانا ہوگی۔ مثلاً آبرو کے خیال کو میر نے یوں لکھا،خوف قیامت کا یہی ہے کہ میرہم کو جیا بار دگر چاہیےاسی بات کو ملک قمی نے میر سے ڈیڑھ سو برس پہلے یوں کہہ دیا تھا،باکم از آشوب محشر نیست می ترسم کہ بازہمچو شمع کشتہ باید زندگی از سر گرفتاب ظاہر ہے کہ یہ بات قریب قریب ناممکن ہے کہ ملک قمی اور میر اور آبرو کو قیامت کے بارے میں ایک ہی سا احساس اپنی ذاتی زندگی میں ہوا ہو۔ یہ لوگ تو دراصل غزل کے متکلم کے مختلف احساسات اور تجربات بیان کر رہے تھے اور جہاں متکلم ہے، وہاں بیانیہ اگر براہ راست نہیں تو بیانیہ کا ہیولیٰ ضرور موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جدید مغربی نقاد غزل کے متکلم کو ’’راوی‘‘ (Narrator) کہنا پسند کرتے ہیں اور غزل کی ہمہ گیر، ہمہ وقت مقبولیت کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ غزل کا سامع غزل کے شعر کو بیانیہ کی سطح پر قبول کرتا ہے اور اس میں وہی پیچیدگیاں اور باریکیاں دیکھتا ہے جو بیانیہ میں ممکن ہیں۔ یہ بات غلط ہو یا صحیح لیکن اس سے یہ تو ثابت ہی ہو جاتا ہے کہ غزل کے بھی شعر کو بیانیہ کی سطح پر دیکھنا ممکن ہے۔ڈراما، فلم، اخباری فلم وغیرہ میں بیانیہ ہے یا نہیں، یہ سوال بڑی حد تک پیش کردگی پر مبنی ہے، اور پیش کردگی ہی پر مبنی کرکے خالص بیانیہ کو بھی تین انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔(۱) لکھا ہوا بیانیہ، جو زبانی سنانے کے لئے خصوصی طور پر نہ لکھا گیا ہو، مثلاً ناول، افسانہ، سفرنامہ، تاریخ وغیرہ۔(۲) ایسا بیانیہ جو صرف زبانی سنایا جائے، مثلاً داستان، جب تک وہ غیرتحریری شکل میں ہو۔(۳) ایسا بیانیہ جو لکھا ہوا تو ہو، لیکن پہلے وہ زبانی سنایا گیا ہو یا جسے زبانی سنانے کی غرض سے لکھا گیا ہو، مثلاً داستان، جب وہ زبانی سنانے کے کام کی ہو لیکن جسے لکھ لیا گیا ہو یا چھاپ دیا گیا ہو۔زبانی بیانیے کی بعض شکلیں حسب ذیل ہیں،(۱) ایسا بیانیہ جو زبانی یاد کر لیا گیا ہو اور پھر من وعن یا تھوڑی تبدیلی کے ساتھ سنایا جائے۔(۲) ایسا بیانیہ جو پہلے لکھا جائے، پھر سنانے کی غرض سے زبانی یاد کر لیا جائے۔(۳) ایسا بیانیہ جو سنانے کے وقت فی البدیہہ تصنیف کیا جائے۔(۴) ایسا بیانیہ جو تھوڑا بہت زبانی یادہو اور بیچ بیچ میں اس میں فی البدیہہ حصے ملائے جائیں۔(۵) ایسا بیانیہ جس میں صرف خاکہ بیان کنندہ کے ذہن میں ہو، باقی سب رنگ آمیزی فی البدیہہ ہو۔ان سب کے مسائل الگ الگ طرح کے معاملات پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی ملحوظ رکھئے کہ جس طرح تحریر بیانیہ منظوم یا منثور ہو سکتا ہے، اسی طرح زبانی بیانیہ بھی منظوم یا منثور ہو سکتا ہے۔ وضعیاتی نقادوں نے بیانیہ پر بہت توجہ صرف کی ہے۔ شاید اس توجہ کے باعث بیانیہ کی تنقید اور اس کے نظریاتی مباحث یعنی بیانیات (Narratology) کو جدید تنقید میں اہم ترین مقام حاصل ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ بیانیہ کو پوری زندگی کا استعارہ کہہ سکتے ہیں۔ بقول زویتان ٹاڈاراف (Tzvetan Todorove)، بیانیہ برابر ہے حیات کے۔بعض نقاد مثلاً فریڈرک جیمی سن (Frederic Jameson) بیانیہ کو ہمارے تجربۂ حقیقت کا contentles form (خالی ہیئت) قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تاریخ کے تضادات کو اپنے لاشعور میں داب دیتے ہیں۔ جیمی سن کا خیال ہے کہ بیانیہ، محض اس وجہ سے کہ وہ بیانیہ ہے، تعبیر (interpretation) کا تقاضا کرتا ہے اور اس طرح ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ظاہری معنی اور سطح کے نیچے پوشیدہ موضوع کی دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ جیمی سن اپنے ان خیالات کو مارکسی تصور تاریخ وادب کی پشت پناہی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں تو صرف یہ کہنا ہے کہ بیانیہ آج کی تنقیدی فکر میں اس قدر اہم ہو گیا ہے کہ اس سے پوری زندگی کی تعبیر کا کام لینے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔اس وقت اتنا کہنا کافی ہوگا کہ جیمی سن نے بیانیہ کو جو اعلیٰ مقام عطا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ایک طرح سے ادب میں سیاسی اور مارکسی نظریاتی شعور کی ناگزیریت کے لیے ایک خاموش وکالت ہے۔ اس معاملے میں مدلل وکالت تو ہو نہیں سکتی، لہٰذا جیمی سن یہ کہہ کر بات برابر کرنا چاہتا ہے کہ صاحب سارا ہی بیانیہ اس ’’سیاسی لاشعور‘‘ (Political Unconscious) کا ظرف ہے جو ہر باشعور بیانیہ فن کار کے اندر موجود ہے۔ فنکار بس اسے کسی نہ کسی چادر میں لپیٹ کر اپنے بیانیہ میں ڈال دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی توجیہ، یا ایسی توضیح جو ہر معاملے پر یکساں جاری ہو سکے، دراصل مافیہ سے عاری ہوتی ہے۔ (Explaining all is explainingnothing) ہر چیز آئیڈیالوجی ہے، یہ کہنا اتنا ہی بے معنی ہے جتنا یہ کہنا کہ ہر چیز کی اصل جنس، یا جنسی تحرک ہے۔بعض دوسرے مابعد وضعیاتی مفکر مثلاً ژاں فرانسوالیوتار (Jean Francois Lyotard) ان تمام فلسفوں کو جن میں پوری انسانی صورت حال بیان کرنے کی سعی ہوئی ہے (مثلاً افلاطونیت، نوافلاطونیت، ہیگل کی ماورائیت اور فلسفۂ تاریخ، مارکسزم) ان کو وہ بیانیہ اعظم Grand Narrative کا نام دیتے ہیں، کیونکہ بیانیہ کسی انسانی صورت حال کو علامتی طور پر بیان کرتا ہے اور بیانیۂ اعظم وہ ہے جو تمام انسانی صورت حال کو بیان کرتا ہے۔ (اب یہ اور بات ہے کہ لیوتار اور اس کے ہمنوا ہر بیانیۂ اعظم کی صداقت کے منکر ہیں۔ (یہ معاملہ بھی فی الحال ہماری بحث سے خارج ہے۔) بنیادی بات یہ ہے کہ آج بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بیانیہ تعبیر کا تقاضا کرتا ہے اور تعبیر پیش بھی کرتا ہے۔اگر افلاطونیت یا مارکسزم جیسے میزانیاتی (totalizing) فلسفوں کو بیانیۂ اعظم نہ بھی کہا جائے تو یہ بات بہرحال واضح ہے کہ تہذیب کی سطح پر بیانیہ انتہائی مرکزی مقام کا حامل ہے، جیسا کہ جے ہلس ملر J. Hillis Miller نے حال (۱۹۹۰ء) میں کہا ہے، انسانی زندگی، زمانہ، تقدیر، شخصیت وذات، ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم جب تک یہاں ہیں، کیا کریں؟ ہمیں کہاں جانا ہے؟ ان سب باتوں کے بارے میں کسی تہذیب میں کیا تصورات جاری وساری ہیں، بیانیہ نہ صرف یہ کہ ان تصورات کو ضبط میں لاتا ہے، ان کو مستحکم کرتا ہے، بلکہ بسااوقات وہ ان کی تخلیق بھی کرتا ہے۔
حاشیہ(۱) اس شاعر کا نام عام طور پر ’’سدی‘‘، یا ’’سدے‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ اکبر نے ’سودی‘ (اول غالباً مفتوح) لکھاہے، نظم کے آخر میں ’’سودے‘‘ نظم کیا گیا ہے، لیکن یہ سہو کاتب ہو سکتا ہے۔ ساؤتھی خود اپنا نام اسی طرح ادا کرتا تھا جس طرح میں نے لکھا ہے، یعنی South، یعنی جنوب سے تعلق رکھنے والا۔ امریکہ کے شہر باسٹن (Boston) کے جنوبی علاقے کو آج بھی Southie کہتے ہیں۔ ساؤتھی کی نظم اس وقت سامنے نہیں، لیکن مدت کی پڑھی ہوئی اس نظم کے بارے میں اتنا یاد ہے کہ اصل انگریزی میں بھی پانی کی نقشہ نگاری اسی انداز میں ہے، لیکن اکبر کا ترجمہ بالکل آزاد ہے اور انگریزی اصل سے کم نہیں۔