چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی

چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی
گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی


چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا
یہ عزت شاہ راہ عام پہ لائی نہیں جاتی


غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی
شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی


ارے کم ظرف مے نوشی کا یہ کوئی سلیقہ ہے
سر محفل مئے گل رنگ چھلکائی نہیں جاتی


سجا دیتا ہوں خوابوں کے در و دیوار پہ اس کو
وہ اک شے جو کسی صورت سے اپنائی نہیں جاتی


نہ پوچھو کیا نگاہ ناز نے دل پر اثر چھوڑا
غزل کے شعر میں تاثیر وہ لائی نہیں جاتی


ہجوم شہر ہو عارفؔ کہ اپنے گھر کی خلوت ہو
نہیں جاتی مگر اپنی یہ تنہائی نہیں جاتی