چمک کیسی رخ انوار میں ہے

چمک کیسی رخ انوار میں ہے
زمانہ سارا ہی اسرار میں ہے


لگائیں اپنے فن پاروں کی قیمت
کہ اب ہر چیز ہی بازار میں ہے


کئی آنکھیں گڑھی جاتی ہیں مجھ میں
کوئی روزن در و دیوار میں ہے


رہا ہوں منتظر جس کا ازل سے
وہی چہرہ مرے افکار میں ہے


نہیں پہلا سا اب رنگ بہاراں
کہ ویرانی گل و گلزار میں ہے


حدیث دل بیاں کیسے ہو آصیؔ
مجھے مشکل بہت اظہار میں ہے