چلو پی لیں کہ یار آئے نہ آئے
چلو پی لیں کہ یار آئے نہ آئے
یہ موسم بار بار آئے نہ آئے
ہم اس کی راہ دیکھیں گے ہمیشہ
وہ جان انتظار آئے نہ آئے
یہ سوچا ہے کہ اس کو بھول جائیں
اب اس دل کو قرار آئے نہ آئے
گلابوں کی طرح تم تازہ رہنا
زمانے میں بہار آئے نہ آئے
ضمیرؔ اس زندگی سے کیوں خفا ہو
اسے پھر تم پہ پیار آئے نہ آئے