چل پڑے ہم دشت بے سایہ بھی جنگل ہو گیا

چل پڑے ہم دشت بے سایہ بھی جنگل ہو گیا
ہم سفر جب مل گئے جنگل میں منگل ہو گیا


میں تھا باغی خشک قطرہ بادلوں کے دیس کا
سنگ دل لمحوں سے ٹکرایا تو جل تھل ہو گیا


ہاں اتر آتی ہیں اس وادی میں پریاں چاند کی
کہتے ہیں اک اجنبی سیاح پاگل ہو گیا


رس بھری برسات میں کھلنے لگا دھرتی کا روپ
جسم کا آکاش اس خوشبو سے بے کل ہو گیا


دور کھسکی جا رہی ہے پاؤں کے نیچے زمیں
سر کے اوپر آسماں آنکھوں سے اوجھل ہو گیا


کتنے قرنوں نے تراشا اس بت بے درد کو
کتنی نسلوں کا لہو اس جسم میں حل ہو گیا


عمر بھر دونوں کو قید باہمی کی دی سزا
وہ جو اغوا کا مقدمہ تھا سو فیصل ہو گیا


ہر نفس ہے سنگ باری دل کے کچے گھاؤ پر
لمحہ لمحہ زندگی کا کتنا بوجھل ہو گیا