چچا سام کے نام آٹھواں خط

چچا جان، تسلیم و نیاز۔


امید ہے کہ میرا ساتواں خط آپ کو مل گیا ہوگا۔ اس کے جواب کا مجھے انتظار ہے۔ کیا آپ نے روسی ثقافتی وفد کے توڑ میں کوئی ایسا ہی ثقافتی اور خیر سگالی وفد یہاں پاکستان میں بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔۔۔؟ مجھے اس سے ضرور مطلع فرمایئے گا تاکہ اس طرف سے مجھے اطمینان ہو جائے اور میں یہاں کے کمیونسٹوں کو جو ابھی تک روسی وفد کی شاندار کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں، یہ خبر سنا کر برفادوں کہ میرے چچا جان اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر ایسا وفد بھیج رہے ہیں جس میں ملین ڈالر ٹانگوں اور بلین ڈالر جو بنوں والی لڑکیاں شامل ہوں گی جن کی ایک جھلک دیکھ کر ہی ان کی رال ٹپکنے لگے گی۔

آپ کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہمارے صوبے کے وزیر اعظم جناب ملک فیروز خان نون صاحب میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ آپ نے پچھلے دنوں زیرلب صرف اتنا کہا تھا کہ ہمیں کمیونسٹوں کی رشیہ دوانیوں کو دبانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ مبارک ہو کہ دابنے دبانے کا یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ بسم اللہ کمیونسٹوں کے دفتر پر پولیس کے چھاپے سے ہوئی ہے اور میں یہ خط اسی خوشی میں لکھ رہا ہوں۔ ہمارے اخبار کہتے ہیں کہ بہت جلد ’’سرخوں‘‘ کی گرفتاریوں کی بھرمار شروع ہو جائے گی۔ محکمہ پولیس نے گرفتار کئے جانے والوں کی فہرست تیار کر لی ہے۔ اللہ نے چاہا تو بہت جلد یہ فتنہ ساز جیلوں میں ہوں گے۔ سب سے پہلے اگر کامریڈ فیروز الدین منصور کو قید کیا گیا تو مجھے بڑی راحت ہوگی۔ اس کو دمے کی شکایت ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جس کو یہ مرض ہو تو وہ مرنے کا کبھی نام ہی نہیں لیتا۔ یہ مرض کی اگر زیادتی ہے تو کامریڈ منصور کی بھی زیادتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر اب اسے جیل میں ڈالا گیا تو ضرور مر جائے گا۔۔۔ خس کم جہاں پاک۔

احمد ندیم قاسمی بھی یقیناً قید کیا جائے گا۔ میاں افتخار الدین نے اس کو اپنے پرچے ’’امروز‘‘ کا ایڈیٹر بنا کر بہت بڑا جرم کیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ میاں صاحب گرفتار کئے جاتے مگر وہ بڑے کائیاں ہیں۔ پولیس ہتھکڑیاں لے کر اس کی کوٹھی پہنچے گی تو وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلیں گے اور ’’اسٹے آرڈر‘‘ دکھا دیں گے۔ پچھلے دنوں’امروز‘ اور ’پاکستان ٹائمز‘ کے دفاتر میں کرائے کی نادہندگی کے باعث تالے لگنے ہی والے تھے کہ ایک ’اسٹے آرڈر‘ مداری کے مانند تھیلے سے باہر نکال کر پولیس کی متحیر آنکھوں کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔ بہرحال احمد ندیم قاسمی بھی قصور وار ہے۔ اس کو اس کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔ کم بخت ’’پنج دریا‘‘ کا قلمی نام لکھ کر آپ کی تاروں بھری ٹوپی اچھالتا رہتا ہے۔

میری تو یہ رائے ہے کہ آپ پانچ چھ امریکی لڑکیاں (صرف کنواری) اس کی بہنیں بنا دیں۔ اس کو راہ راست پر لانے کا یہ نسخہ بہت مجرب ہے۔ اس صورت میں اس کو جیل خانے میں ٹھونسنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جب پانچوں گھی میں اور سر کڑاہے میں ہوگا تو کمیونزم اس کے دماغ سے ایسے غائب ہو گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جونہی یہاں ’’سرخوں‘‘ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، میں آپ کو مطلع کر دوں گا۔ میری برخورداریاں نوٹ فرماتے جائیے گا۔ اگر آپ اچھے موڈ میں ہوں تو مجھے تین سو روپے بطور قرض دینا نہ بھولئے گا۔ پچھلا تین سو تو میں نے دو دن کے اندر اندر ہی ختم کر ڈالا تھا اور آپ کی یہ عنایت قریب قریب دو برس پرانی ہو چکی ہے۔

میں نے اپنے چھٹے خط کے متعلق جو آپ تک نہیں پہنچا، تفتیش کی ہے۔ جیساکہ مجھے شک تھا، یہ سب ان ناہنجار کمیونسٹوں کی شرارت تھی۔ احمد راہی کو آپ جانتے ہیں؟ وہی ’’ترنجن‘‘ کا مصنف، جس کو ہماری حکومت نے پانچ سو روپیہ انعام دیا تھا کہ اس نے پنجابی زبان میں بڑی پیاری نظمیں لکھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ نظمیں بڑی پیاری اور نرم و نازک ہیں، مگر آپ نہیں جانتے یہ راہی بڑا خطرناک کمیونسٹ ہے، پارٹی آفس میں دوسرے ممبر ٹوٹے پیالوں میں چاء پیتے ہیں مگر یہ چھپ چھپ کر بیئر پیتا ہے اور پی پی کر موٹا ہو رہا ہے۔ میرا دوست ہے۔ میں نے اسی کو خط پوسٹ کرنے کے لئے دیا تھا، مگر کمیونسٹ جو ہوا۔ یہ خط گول کر گیا اور پارٹی کے حوالے کر دیا۔ مجھے ابھی تک پورے طور پر تاؤ نہیں آیا اور میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں۔ ورنہ میں نے سوچ رکھا ہے کہ ایک روز اس کو اتنی بیئر پلاؤں کہ اس کی توند پھٹ جائے۔

ایک دن کم بخت مجھ سے کہنے لگا، ’تم اپنے چچا سام کو چھوڑو‘ مالنکوف سے خط و کتابت شروع کرو۔ آخر وہ تمہارا ماموں ہے۔ میں نے کہا یہ درست ہے، لیکن وہ میرے سوتیلے ماموں ہیں، ان کو مجھ سے یا مجھ کو ان سے کبھی محبت نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ میں جانتا ہوں کہ ان کا اپنے سگے بھانجوں سے بھی کوئی اچھا برتاؤ نہیں۔ وہ غریب اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔ ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنی خستہ حالیوں کے باوجود دن رات اس کی خدمت کرتے ہیں اور وہ صرف ایک سوکھی شاباشی اپنی سرخ مہر لگا کر وہاں سے روانہ کر دیتا ہے۔ انگریز چچا اور انگریز ماموں اس روسی ماموں سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ خان بہادر اور خان صاحب ایسے خطابوں ہی سے سرفراز فرما کر ٹرخا دیتے تھے، لیکن مالنکوف صاحب یہ بھی نہیں کرتے۔۔۔ میں جب مانوں کہ وہ عبداللہ ملک کو جو ان کا سب سے وفادار بھانجا ہے، کوئی چھوٹا سا خطاب ہی عطا فرما دیں۔ اس کے لئے جیل جا کر آرام و اطمینان سے کتابیں لکھنے میں کتنی آسانی ہو جائے گی۔

کچھ بھی ہو۔ میں آپ کا غلام ہوں۔ آپ نے تو پہلے تین سو روپوں ہی میں مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خرید لیا تھا، اگر آپ تین سو اور بھیج دیں تو دوسری زندگی میں بھی اس غلامی کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں بشرطیکہ اللہ میاں جو آپ سے بڑا ہے، میرے لئے پانچ چھ سو روپے ماہوار کا وظیفہ مقرر نہ کر دے۔ اگر انہوں نے کسی حوا سے میرا نکاح پڑھوا دیا تو مجھے افسوس ہے کہ یہ وعدہ اس صورت میں تو بالکل ایفا نہ ہو سکے گا۔۔۔ میری صاف بیانی کی داد دیجئے۔ بات در اصل یہ ہے کہ میں اللہ میاں اور اس کی حور کے سامنے چوں تک بھی نہ کر سکوں گا۔

آج کل ہمارے یہاں شاہی مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ پہلے شاہ ایران آئے، پھر شاہ عراق، پھر پرنس علی خان (آپ کی ریٹا بیورتھ کے سابق شوہر) مہاراجہ جے پور۔۔۔ اور اب شاہ سعود والی سعودی عرب، میں شاہ سعود خلد اللہ ملکہ کی آمد کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال مختصراً بیان کرتا ہوں، شاہ سعود اپنے پچیس شہزادوں سمیت ہوائی جہاز کے ذریعے سے کراچی پہنچے جہاں ان کا بڑا شاندار استقبال ہوا۔ ان کے شہزادے اور بھی ہیں۔ معلوم نہیں وہ کیوں نہ آئے۔ شاید اس لئے کہ دو تین ہوائی جہاز اور درکار ہوں گے۔ یا ان کی عمر بہت چھوٹی ہوگی اور وہ اپنی ماؤں کی گود کو ہوائی جہاز پر ترجیح دیتے ہوں گے۔ بات بھی ٹھیک ہے اپنی ماؤں اور اونٹنیوں کا دودھ پینے والے بچے گلیکسو یا کاؤگیٹ کے خشک دودھ پر کیسے جی سکتے ہیں۔

چچا جان، غور کرنے والی بات ہے۔ شاہ سعود کے ساتھ ماشاء اللہ ان کے پچیس لڑکے تھے۔ لڑکیاں خدا معلوم کتنی ہوں گی۔ خدا ان کی عمر دراز کرے اور شاہ کو نظر بد سے بچائے۔ مجھے بتایئے کیا آپ کی سات آزادیوں والی مملکت میں کوئی ایسا مرد مجاہد یا مرد مردم خیز موجود ہے جس کی اتنی اولاد ہو۔ چچا جان یہ سب ہمارے مذہب اسلام کی دین ہے اور یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ ناچیز کی یہ رائے ہے کہ آپ فوراً اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام قرار دے دیں۔ اس سے بڑے فائدے ہوں گے۔ قریب قریب ہر شادی شدہ مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہوگی، اگر ایک عورت چار بچے بھی بڑے بخل سے کام لے کر پیدا کرے تو اس حساب سے سولہ لڑکے لڑکیاں ایک مرد کی مردانگی اور اس کی بیوی کی زرخیزی کا ثبوت ہونی چاہئیں۔ لڑکے اور لڑکیاں جنگ میں کتنی کام آ سکتی ہیں آپ جہاندیدہ ہیں، خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

میں امرتسر کا رہنے والا ہوں (مسٹر ریڈ کلف کی مہربانی سے یہ اب بھارت میں چلا گیا ہے۔) اس میں ایک حکیم تھے۔۔۔ محمد ابوتراب۔ آپ نے اپنی زندگی میں دس شادیاں کیں۔ چار چار کر کے نہیں۔ ایک ایک کر کے۔ ان بیویوں سے ان کی بے شمار اولاد تھی۔ جب انہوں نے نوے برس کی عمر میں آخری شادی کی تو ان کے بڑے لڑکے کی عمر پچھتر برس کی اور سب سے چھوٹے کی جو اس آخری بیوی کے بطن سے پیدا ہوا صرف دو برس تھی۔ ایک سو بارہ برس کی عمر میں آپ کا انتقال یہاں لاہور میں ایک مہاجر کی حیثیت سے ہوا۔۔۔ کسی شاعر نے ان کی تاریخ وفات اس مشہور مصرعے میں نکالی تھی،


حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے
۱۳۷۱ ہجری

یہ بھی اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے منظور شدہ مذہب، اسلام کی برکت تھی۔ اگر آپ کے شادی شدہ مردوں کو شروع شروع میں چار بیویوں کو بیک وقت سنبھالنے میں کسی قسم کی دقت محسوس ہو تو شاہ سعود کو اپنے یہاں بلا کر آپ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ ان کے دوست ہیں۔ ان کے والد مرحوم سے تو آپ کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ آپ نے ان کے اور ان کے حرم کے لئے بڑی عالی شان موٹر گاڑیوں کا ایک کارواں تیار کروا کے ان کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ میرا خیال ہے شاہ سعود آپ کو اپنے تمام صدری نسخے بتا دیں گے۔ ہمارے پاکستان کے ساتھ آج کل سوائے ہندوستان اور روس کے قریب قریب ہر ملک دلچسپی لے رہا ہے اور یہ سب آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ہماری طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور ہم اس قابل ہو گئے کہ دوسرے بھی ہم پر نظر کرم فرمانے لگے۔

ہم پاکستانی تو اسلام کے نام پر مر مٹتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم مصطفی کمال پاشا اور انور پاشا کے شیدا تھے۔ انور پاشا کے مرنے کی خبر آتی تو ہم سب سوگ کرتے۔ سچ مچ کے آنسوؤں سے روتے۔ جب یہ پتہ چلتا کہ وہ خدا کے فضل و کرم سے زندہ ہیں تو ہم خوشی سے ناچتے کودتے، گھروں میں چراغاں کرتے۔ مصطفی کمال اور انور دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ ترکوں کو ہندی مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ہم کو تین میں سمجھتے تھے نہ تیرہ میں، اس کا ہمیں کچھ کچھ پتہ تھا، لیکن ہمیں ان سے محبت تھی کہ وہ ہمارے اسلامی بھائی تھے۔۔۔ ہم ایسے شریف النفس اور سادہ لوح آدمی ہیں کہ ہمیں آ ملے اور چمبیلی کے اس تیل سے بھی محبت ہے جو یہاں ’’اسلامی بھائیوں کا تیار کردہ‘‘ بکتا ہے۔ اس کو ہم اپنے سروں میں ڈالتے ہیں تو ایسا کیف حاصل ہوتا ہے کہ موعودہ جنت کی تمام لطافتیں اس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں۔۔۔ ہم بڑے بدھو، مگر بڑے پیارے لوگ ہیں۔ خدا رہتی دنیا تک ہماری تمام صفات قائم رکھے۔

میں بات شاہ سعود کے ورود مسعود کی کر رہا تھا، لیکن جذباتی ہو کر اسلام کے گن گانے لگا۔ بات یہ ہے کہ اسلام کے گن گانے ہی پڑتے ہیں۔ ہندو مذہب، عیسائی اور بدھ مت۔۔۔ آخر یہ کیا ہیں۔ کیا ان کے ماننے والوں میں کوئی ایک فرد پچیس لڑکوں کا باپ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اسی لئے میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سرکاری مذہب اسلام مقرر فرما دیں تاکہ آپ کو کوئی جاپان فتح کر کے حرامی بچے پیدا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔۔۔ چچا جان کیا آپ کو یہ حرامی پنا پسند ہے۔۔۔؟ میں مسلمان ہوں۔ مجھے تو اس سے خدا اور اس کے رسول ؐ کی قسم سخت نفرت ہے۔ بچے ہی پیدا کرنے ہیں تو اس کا کتنا سہل طریقہ اسلام میں موجود ہے۔ نکاح پڑھوایئے اور بڑے شوق سے حلال کے بچے پیدا کیجئے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ بھی چار شادیاں کر لیجئے۔ چچی جان اگر بقید حیات ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ مشرف بہ اسلام ہو کر تین اور شادیاں کر سکتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں آپ مشہور ایکٹرس عشرت جہاں ببو کو اپنے رشتہ مناکحت میں لا سکتے ہیں کہ وہ کئی شوہروں کا تجربہ رکھتی ہے۔

شاہ سعود بڑی پر از سحر شخصیت کے مالک ہیں، طیارے سے باہر نکلتے ہی آپ ہمارے لاہور کے موچی دروازے کے گورنر جنرل جناب غلام محمد صاحب سے بغل گیر ہوئے اور اسلامی بھائیوں کی رجسٹرڈ اخوت و محبت کا مظاہرہ کیا جو بڑا کفر شکن تھا۔ آپ کے اعزاز میں کراچی کے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر نعرے لگائے، جلسے کئے، جلوس نکالے، دعوتیں کیں اور اسلام کی سیزدہ صد سالہ روایات کو قائم رکھا۔ سنا ہے شاہ سعود اپنے ساتھ ایک ایسا سونے سے بھرا ہوا بکس لائے تھے جو کراچی کے مزدوروں سے بصد مشکل اٹھایا گیا۔ آپ نے یہ سونا کراچی میں بیچ دیا اور پاکستان کو دس لاکھ روپے مرحمت فرمائے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ اس روپے سے غریب مہاجرین کے لئے ایک کولونی تعمیر کی جائے گی جس کا نام سعود آباد ہوگا۔۔۔ رہے نام اللہ کا!

معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شاہ سعود خیر سگالی کے طور پر اپنے دو صاحب زادوں کی شادی ہمارے پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں۔ زہے نصیب۔ سنا ہے کراچی میں بیگم شاہ نواز کو جب عرب شہزادوں کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہ ملا تو انہوں نے بیگم بشیر کو ٹیلی فون کیا کہ وہ لاہور میں سلسلہ جنبانی کریں، اس لئے کہ لاہور آخر لاہور ہے۔ اس میں شہزادوں کے لائق کنواری لڑکیوں کی کیا کمی ہے، چنانچہ سنا ہے کہ بیگم بشیر نے بیگم جی اے خان اور بیگم سلمیٰ تصدق کو ساتھ ملا کر روایتی (نائین) کے فرائض سرانجام دیے اور مختلف اونچے گھرانوں میں شاہ سعود کے دو ارجمند فرزندوں کے لئے پیغام لے کر گئیں مگر افسوس ہے کہ انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہمارے اونچے طبقے کی جوان اور ناکتخدا لڑکیوں کو عرب کے یہ ’’اونٹ‘‘ ایک آنکھ نہیں بھائے۔

میں سمجھتا ہوں یہ ان کی غلطی ہے۔ اس سے پہلے جب کہ پاکستان نہیں بنا تھا، سعودی عرب سے ہندوستان کے مسلمانوں کا اس قسم کا رشتہ ہو چکا ہے۔ مولانا داؤد غزنوی اور مولانا اسماعیل غزنوی کے خاندان کی ایک دوشیزہ مرحوم شاہ سعود کے والد بزرگوار جناب عبدالعزیز ابن سعود کے رشتہ مناکحت میں جا چکی ہیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ مولانا اسماعیل غزنوی نے اسی سلسلے میں ستائیس حج کئے تھے۔ حالانکہ ایک ہی حج کافی تھا۔ دل بدست آور کہ حج اکبر است۔ گو بیگم بشیر، بیگم جی اے خان اور بیگم تصدق کو اس کارخیر میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی اور ہمارے پاکستان سے ایسی دو لڑکیاں برآمد ہو جائیں گی جن کو سرزمین حجاز کے شہزادے سرفراز فرما سکیں گے۔

میں نے اپنے کسی پچھلے خط میں اپنے یہاں کی خواتین کے متعلق آپ کو کچھ لکھا تھا۔ غالباً ان بلاؤزوں کے بارے میں جو بڑی عمر کی پہنتی ہیں اور اپنے کلبوت چڑھے پیٹوں کی نمائش کرتی ہیں۔ اس پر ہماری یونیورسٹی کے صدر شعبہ فارسی جناب ڈاکٹر محمد باقر صاحب بہت جزبز ہوئے، آپ نے مجھے کئی مہذب قسم کی گالیاں دیں اور اس لئے ملعون و مطعون قرار دیا کہ میں نے اپنے یہاں کی ’’عورت‘‘ کی بے حرمتی کی ہے۔ لا حول و لا۔۔۔ میں نے جو کچھ بیان کیا تھا، محض یہ تھا کہ بوڑھی عورتوں کو اپنی عمر سے اس قسم کے نیم عریاں چوچلے زیب نہیں دیتے۔ مجھے ڈر ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب میرا یہ خط پڑھیں گے تو مجھ پر پھر یہ الزام دھریں گے کہ میں نے پھر اپنی ’’ عورت‘‘ کی بے حرمتی کی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہم لوگ فطرتاً سادہ لوح اور بدھو ہیں۔ ہماری عورتیں تو بادنما مرغیاں ہیں۔ جدھر ہوا چلتی ہے، ادھر چل پڑتی ہیں۔

شاہ ایران تشریف لائے تو اونچی سوسائٹی کی لڑکیوں نے طرح طرح سے خود کو سجایا بنایا کہ شاہ ان دنوں فارغ تھے (فوضیہ کو طلاق دے چکے تھے۔) مگر انہوں نے ان سے صرف رسمی دلچسپی لی اور ایران جا کر ثریا اسفند یار سے شادی کر لی۔ اس کے بعد پرنس علی آئے۔ وہ بھی فارغ تھے اس لئے کہ آپ کی ریٹا بیورتھ ان سے طلاق حاصل کر چکی تھی۔ ہماری اونچی سوسائٹی کی لڑکیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی مانگ چوٹی درست کی۔ نوک پلک نکالی، مگر اس شہزادے نے ان کی ساری امنگوں پر ٹھنڈا یخ پانی پھیرا اور آپ کے ہالی وڈ کی ایک اور ایکٹرس جین ٹیرنی سے معاشقہ شروع کر دیا۔۔۔ خدا آپ کی سات آزادیوں والی مملکت کو قائم و دائم رکھے۔

پھر شاہ عراق آئے، مگر ہماری اونچی سوسائٹی کی پاکیزہ لڑکیاں انہیں دیکھ کر بہت مایوس ہوئیں، اس لئے کہ وہ کم عمر تھے۔ ایک نے کہا، ’’ہائے۔۔ اس بچے کا تو کھیل کود کا زمانہ ہے۔ کیوں اس بیچارے پر سلطنت کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک بوڑھی (جس کا پیٹ بہت زیادہ ننگا نہیں تھا) شاہ عراق پر ترس کھا کے کہا، ’’بڈھوں سے اس غریب کو کیا دلچسپی ہوگی۔۔۔ جاؤ اس کے ہمعمر بلاؤ اور ان سے اس کو ملاؤ۔‘‘ یہ بھی گئے۔

اب شاہ سعود تشریف لائے، اپنے بائیس یا پچیس شہزادوں سمیت گورنمنٹ ہاؤس میں ان کی شاندار دعوت ہوئی، جس میں اونچی سوسائٹی کی تمام کتخدا اور ناکتخدا لڑکیوں اور عورتوں نے شرکت کی۔ سگریٹ پینے کی اجازت نہیں تھی۔ ’’عبداللہ‘‘ کی بھی نہیں۔ بہرحال وہ سگریٹ کے دھوئیں کے بغیر بہت محظوظ ہوئے۔۔۔ اور یہ حظ انہیں خالص اسلامی مہمان نوازی کی بدولت نصیب ہوا۔ ان کے دو درجن شہزادوں نے انار کلی میں سیکڑوں پاکستانی جوتے خریدے اور اپنی خیر سگالی کا ثبوت دیا۔۔۔ اب یہ جوتے صحرائے عرب کی ریتوں پر چلیں گے اور اپنی دیرپائی کے فانی نقش ثبت کریں گے۔

یہ خط نامکمل چھوڑ رہا ہوں اس لئے کہ مجھے اپنے ایک پبلشر سے اپنی نئی کتاب کی رائلٹی وصول کرنی ہے۔ دس روز سے وعدے کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے آج دس روپے تو ضرور دے دے گا۔ یہ مل گئے تو میں یہ خط پوسٹ کر سکوں گا ورنہ۔۔۔ جین ٹیرنی کو ایک اڑتا ہوا بوسہ۔

آپ کا برخودار


سعادت حسن منٹو


۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ، لاہور
مورخہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۵۴ء