چاٹ والا

پکوان کیا مزے کے لاتا ہے چاٹ والا
لے کر بڑا سا تھیلا آتا ہے چاٹ والا


بمبئی کی بھیل پوری اجین کی کچوری
کھا کر انہیں ہوئی ہے ہر اک زباں چٹوری


رگڑا مسالہ بچو جس شخص نے نہ کھایا
سمجھو کہ زندگی کا اس نے مزہ نہ پایا


ٹکیاں یہ آلوؤں کی اس پر مزے کے چھولے
لذت جو ان کی پائے گونگا زبان کھولے


دیکھو دہی بڑا تو آتا ہے منہ میں پانی
اکثر تو نام ان کا لاتا ہے منہ میں پانی


یوں سرخ سے تلے ہیں یہ پپڑیاں سموسے
جو اک نظر بھی دیکھے کھانے کی بات سوچے


گرما گرم پکوڑے چٹنی پھر املیوں کی
آلو بڑے مزے کے مرچیں بھی تیز تیکھی


کھانا ضرور بچو آخر میں پانی پوری
اس کو اگر نہ کھاؤ پھر چاٹ ہے ادھوری


لکھی نیازؔ نے بھی یہ نظم چاٹ کھا کر
تم بھی سناؤ بچو سب کو یہ نظم گا کر