چار فتنے

تین فتنوں کا قصہ پرانا ہوا
چار فتنوں کا سنیے ذرا ماجرا


ایک لمبے ہیں عالم بھی فاضل بھی ہیں
سچ تو یہ ہے کہ تھوڑے سے کاہل بھی ہیں


شعر کا شوق بھی علم کا ذوق بھی
اور گلے میں علی گڑھ کا ہے طوق بھی


مرغ و ماہی کی رگ رگ سے یہ آشنا
دوستوں پر فدا اور گھر سے جدا


کھانے پینے کا کوئی نہیں ہے نظام
تیر تکے پہ چلتا ہے سب ان کا کام


دوسری جو ہیں پڑھنے میں گو تیز ہیں
ان کو دیکھو تو بالکل ہی انگریز ہیں


راس آیا ہے لکھنے کا چکر انہیں
ملتے رہتے ہیں انعام اکثر انہیں


ہیں نفاست پسند اور خلوت پسند
دوستی میں بھی رہتی ہیں کچھ بند بند


بولتی ہیں تو لفظوں کا غائب سرا
جملہ ان کا ادھورا ہی پلے پڑا


تیسری تیز ہے اور ہر فن میں طاق
ہر گھڑی دل لگی قہقہے اور مذاق


پڑھتی لکھتی بھی ہے اور گاتی بھی ہے
اپنی باتوں سے سب کو لبھاتی بھی ہے


وہم یہ ہے کہ ہیں دانت میرے بڑے
مجھ سے پوچھو تو لگتے ہیں موتی جڑے


صبح کو روز اخبار پڑھتی ہے یہ
بھائی بہنوں سے پھر جا کے لڑتی ہے یہ


اور چھوٹی ہے گڑیا سی معصوم سی
کچھ تو سنجیدہ سی تھوڑی مغموم سی


شرط اماں سے کہئے کہانی نئی
ایک اپنی سی لڑکی سے ہے دوستی


گھر سجانے کا اس کو بڑا شوق ہے
فلم کا اور گانے کا بھی ذوق ہے


سب سے ملنے کی زحمت اٹھاتی نہیں
ایرے غیرے کو خاطر میں لاتی نہیں


چار پھولوں سے گلشن میں اپنے بہار
چار پھولوں پہ ساری بہاریں نثار


چار فتنے نہیں ہیں یہ ہیں چار یار
ان سے اپنے افق کو لگے چار چاند


ان کی کرنوں سے جگ میں اجالا رہے
ان کا ہر بزم میں بول بالا رہے