چاندنی کا غرور گھٹ جائے

چاندنی کا غرور گھٹ جائے
تیرے آنچل میں جو سمٹ جائے


کون جانے کب آئے گی وہ سحر
نیند جس کے لئے اچٹ جائے


مے چھلک جائے آبگینوں سے
پیتے پیتے ہی رات کٹ جائے


دوستی کے حسین اجالوں سے
تیرگی نفرتوں کی چھٹ جائے


میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں ابھی
وقت شاید کبھی پلٹ جائے