چاند سے متعلق اردو اشعار پر دل چسپ تبصرہ

سائنس نے ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے سمندروں کے پانیوں میں تو تلاطم ہے۔ وہ چاند کی کشش ثقل کی بدولت ہے ۔ ہمارے شاعروں کا دل دریا ، چونکہ سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے اس لیے اس میں مدوجذر اور جوار بھاٹے کا سبب بھی یہی چاند ہے۔بس جہاں چاند کا نام آیا ۔۔۔وہاں حضرت شاعر کا دل مچلنے لگا:


 کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا 
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا 
ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے 
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا 
کبھی بدلیوں کی اوٹ سے چودھویں کے چاند کو تاک جھانک کرتے ہوئے دیکھا تو حضرت شاعر یوں گویا ہوئے: 
گزرتا ہے کبھی جب چودھویں کا چاند بدلی سے
 مہین آنچل سے میں ان کا روئے تاباں یاد آتا ہے 
اور تو اور زمین اور چاند کے درمیان دوری بھی شاعر کو اپنی کسی کو "ڈونگے دکھ" (گہرے دکھ) کی یاد دلانے لگتی ہے :
چودھویں رات کے چاند اور زمین کے مابین
 نارسائی کا جو دکھ ہے وہ ہمارا دکھ ہے 
خیر! چودھویں کا چاند تو بلاشبہ بہت حسین ہوتا ہے. گول مٹول سا... روشن روشن ... آسمان پر اس کے دم سے ایک رونق سی لگی رہتی ہے اور زمین بھی اس کی چاندنی میں نہائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ہر طرف اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی بکھری ہوئی دکھائی پڑتی ہے ۔ ایک روح پرور سماں ہوتا ہے۔۔۔۔ ایسے میں شاعر کا دل بھی جواں ہوتا ہے اور وہ "جوش خطابت میں" محبوب کو چودھویں کا چاند یا چودھویں کے چاند کو محبوب کہہ دیتا ہے۔۔۔  تو اس میں کوئی ایسا مزائقہ بھی نہیں ۔۔۔
لیکن۔۔۔
 ہم آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ یہ پہلی تاریخ کے چاند کو شاعر حضرات کس حساب سے محبوب کے ساتھ ملاتے ہیں ۔ چاند رات کاوہ نحیف و کمزور اور دبلا پتلا سا چاند ۔۔۔ جسے دیکھنے کے لئے بھی دوربینوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔۔ جس کا ہونا ہی موہوم سا ہوتا ہے ۔۔۔اس کی خوبصورتی اور دلکشی کا ذکر کے سمجھ سے بالاتر ۔۔۔ اور اسے محبوب کے ساتھ ملانا یا محبوب کو اس کے ساتھ ملانا ماورائے عقل معلوم ہوتا ہے۔۔۔ خیر ! جو کہیں نہیں ہوتا وہ شاعری میں ہوتا ہے ۔
عید کے بعد وہ ملنے کے لیے آئے ہیں
 عید کا چاند نظر آنے لگا عید کے بعد 
ایک اور ایسا ہی شعر ملاحظہ فرمائیے 
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز 
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی 
اب اس شعر میں ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت شاعر نے کس خوبی سے چاند رات کو تازہ تازہ آزاد ہونے والی "ذات شریر"  کی رہائی ی کا الزام بھی اپنے۔۔۔ جان سے پیارے۔۔۔
 راج دلارے محبوب کے سر رکھا ہے:
آپ ادھر آئے ادھر دین اور ایمان گئے 
عید کا چاند نظر آیا تو رمضان گئے 
اسی مضمون کو ایک اور انداز میں ملاحظہ فرمائیے 
اپنے روزہ داروں کو 
عید کا چاند دکھاؤ اب 
ہلال عید کی جسامت اور حجم کے پیش نظر حسب ذیل شعر میں شاعر میاں نے قدرے اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاند کو محبوب کے ابرو سے تشبیہ دی ہے ۔۔۔ چلیں کہیں تو کچھ معقولیت نظر آئی :
ہم آسماں پہ چاند کا نظارہ کیا کریں 
ابرو کو ان کے دیکھیں تو ہو اعتبار عید 
ایک اور شعر دیکھیں :
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
 اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا عید کا چاند 
مذکورہ بالا تمام اشعار کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چند ایک اشعار کے علاوہ چاند رات سے منسوب تمام اشعار میں شعراء کرام نے "چاند" سے مراد چودھویں کا چاند اور "رات" سے مراد پہلی کی رات لی ہوگی . حضرتِ گْوگل کی طرح 
جو ایک "کی ورلڈ"  کہیں سے اٹھاتے ہیں اور دوسرا کہیں سے اور ملا کر "سرچ رزلٹ" ہمارے متھے مارتے ہیں۔ 
چاند رات اور عید کے متعلق بعض اشعار میں البتہ۔۔۔  جہاں چاند رات اور روزِ عید کی خوشی کو محبوب کی دید کی مسرت جیسا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔ وہ پھر بھی قابلِ ہضم معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً
 عید کا چاند جو دیکھا تو تمنا لپٹی 
ان سے تقریب ملاقات کا رشتہ نکلا 
اور یہ کہ:
 گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا 
چاند کو دیکھ کر اس کا چہرہ دیکھا تھا 
اب اس شعر میں چاند دیکھنے کی خوشی کو ایک اور ہی انداز سے بیان کیا گیا ہے :
سن کے آہٹ دوڑتا ہے جسم میں ایسے لہو 
دیکھ کر آیا ہو بالک  چاند جیسے عید کا !
 گوپی چند نارنگ جو اردو کے بہت بڑے نقاد ہیں انہوں نے کہا تھا کہ " شاعری زماں  یا مکاں کی پابند نہیں ہوتی"  یعنی حضرت شاعر کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ جس رات کے چاند کو جس رات میں مرضی فٹ کر دیں۔ 
انہوں نے مزید فرمایا تھا کہ" شاعری کو من کی موج کہا گیا ہے"  چنانچہ آپ بھی اپنے دماغ پر زیادہ زور مت دی جیے ۔۔من کی موج میں ہنسیے۔۔۔ کھیلیے ۔۔۔ زندگی کا لطف اٹھایے ۔۔۔ زندگی زندہ دلوں کا نام ہے ۔۔۔ مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں۔

 

متعلقہ عنوانات