چاند رات
دور کوؤں نے بیٹھ کر لب جو
پھر ہلائے تھکے تھکے بازو
گر رہی ہیں سیاہیاں ہر سو
ایک ہی بار دل کے دروازے
کھلتے ہیں اور پھر نہیں کھلتے
رات عورت ہے گرچہ تیرہ جبیں
دل مگر کاروان سرائے نہیں
ایک ایواں ہے جس کے دروازے
کھل کے اک بار پھر نہیں کھلتے
ایک بیوہ کے نوجواں جذبات
سوچ روشن مگر اندھیر حیات
چاندنی نغمہ ہائے کیف و سرور
چند لمحوں کا اک فسانۂ نور
اور پھر تیرگی سحر اندیش
جس طرح کوئی ایک پل کے لیے
اپنا آنچل بکھیر کر چن لے
اور پھر پردۂ ہائے تاریکی
ایک ہی بار دل کے دروازے
کھلتے ہیں اور پھر نہیں کھلتے