چاند کو دیکھ کے جگنو نے فرمایا ہے
چاند کو دیکھ کے جگنو نے فرمایا ہے
صبح کا بھولا شام کو لوٹ کے آیا ہے
وصل نے کم عمری میں جان گنوائی اور
ہجر ہمارا امرت پی کر آیا ہے
جو نہ ہو پایا وہ اس کی مرضی ہے
جو بھی ہوتا ہے وہ اس کی مایا ہے
درج ہوا ہے بد نامی کے کھاتے میں
عشق میں ہم نے جتنا نام کمایا ہے
حیرت کرتے ہیں بچے جب سنتے ہیں
ایک روپے میں ہم نے کیا کیا کھایا ہے
پھر مایوسی کو اس میں پھنسانا ہوگا
پھر سے امیدوں نے جال بچھایا ہے
اور کوئی اب رنگ نہیں چڑھتا مجھ پر
اس نے ایسا اپنا رنگ جمایا ہے
لفظوں نے جب ہاتھ کبھی کھینچا اپنے
خاموشی نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے
خوشیوں کا لمحہ بھی بچوں جیسا ہے
گھٹنوں گھٹنوں چل کر مجھ تک آیا ہے
کیسی کیسی باتیں دل میں آئیں ہیں
رات گئے جب فون کسی کا آیا ہے