چاند کے تمنائی

شہر دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
روح و جاں کو ڈستی ہے
روح و جاں میں بستی ہے
شہر دل کی گلیوں میں
تاک شب کی بیلوں پر
شبنمیں سرشکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوڑی ہے
اتنی بات تھوڑی ہے
صد ہزار باتیں تھیں
حیلۂ شکیبائی
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
ان سیاہ راتوں میں
ایک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریۂ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک ساماں تھا
آج دل میں ویرانی
ابر بن کے گھر آئی
آج دل کو کیا کہئے
با وفا نہ ہرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے
آ گئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے
بن لئے ہیں افسانے
خوش خیال دنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رتیں بھی آتی ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اور اوب جائے گا
آہٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پنہائی
اور چاند راتوں میں
چاندنی کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آرزو کی گیرائی
ڈھونڈنے کو رسوائی
سرد سرد راتوں کو
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں