کورونا پابندیوں اور کینیڈا کے ٹرک ڈرائیورز کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
آج کے مضمون میں کچھ باتیں ہوں گی سات سمندر پار کینیڈا کی۔ ٹرک ڈرائیورز نے وہاں دارالحکومت سمیت امریکی سرحد اور اہم شہراہوں پر خوب تماشا لگا رکھا ہے۔ سب کچھ بند کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں اب جو جسٹن ٹروڈو کی کینڈین حکومت نے ویکسی نیشن کی پابندی لگائی ہے فوراً واپس لے۔ بہت ہو گیا۔ دو سال ہو چلے ہیں۔ بس ہو گئی ہے ہماری۔ ایک کے بعد دوسری پابندی۔ کبھی لاک ڈاؤن، کبھی ماسک کی پابندی، کبھی کیا تو کبھی کیا۔ اب کرونا کے نام پر پابندیاں نہیں سہی جاتیں۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ کرونا ورونا کوئی چیز نہیں۔ خفیہ ہاتھوں نے کوئی نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ تاکہ ہمیں ویکسین کے ذریعے مائیکرو چپس لگا سکیں۔ پھر وہ ہمیں مزید کنٹرول کریں گے۔ وہ تو دنیا کی آبادی کا بہت سا حصہ بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ انہیں نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنے میں آسانی ہو۔ وہ دنیا کی معیشت اور سماج کو اور مضبوطی سے قابو کر سکیں۔
ارے یار یہ تو وہ کہانی ہے جو آئے دن ہمارے ہاں کوئی نہ کوئی یوٹیوبر سنا رہا ہوتا ہے۔ جی تو جناب آپ کا کیا خیال ہے اس یو ٹیوبر کو رات کو وحی ہوتی ہے؟ یا اس کی والدہ محترمہ اسے لوری کے طور پر سناتی ہیں؟ یہ سب باتیں بیشتر وہیں مغرب سے آتی ہیں۔ ہمیں ان کا اردو ورژن پیش کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لیڈران تو سر عام اس قسم کی کہانیاں نہیں سناتے۔ وہاں بہت سے کنزرویٹو اور دائیں بازو کے رہنما اس قسم کی کہانیاں سناتے پھرتے ہیں۔ کبھی وقت ہو تو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیان کے فیس بک گروپ یا دیگر پلیٹ فارمز پر ان کی بات چیت سنیے یا پڑھیے گا۔ آپ کو معلوم پڑے گا کہ محترم ٹرمپ وہ’’ مجاہد‘‘ ہیں جو تن تنہا خفیہ ہاتھوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ Qanon کے نام کی تحریک جاری ہے امریکہ میں۔ ٹرمپ خوب اسے ہوا دیتے پھرتے ہیں۔ اس کا موقف پڑھیے گا کبھی۔ آپ کو لگے گا یہ تو وہ کہانیاں ہیں جو حقیقت ٹی وی یا کسی دوسرے چینل نے پاکستان کے بارے میں سنائی تھیں۔
بھئی اب ان کہانیوں میں کیا سچ ہوتا ہے یا کیا جھوٹ، میں نہیں جانتا۔ صاف بات ہے بھئی نہ ہی میرا اتنا مطالعہ ہے اور نہ ہی اتنا تجربہ یا دماغ کہ بتا سکوں کہ کون سچ کہتا ہے کون نہیں۔ میں تو خود معلومات کے لیے اخبارات اور نیوز چینلز وغیرہ پر انحصار کرتا ہوں۔ وہ کیا سچ کہتے ہیں کیا نہیں، میرا معاملہ دوش پوش ہے۔
خیر کینیڈا میں فریڈم کونوائے یا کاروان آزادی کے بارے میں آپ کو بتا رہا تھا۔۔ یہ وہ نام ہے جو ٹرک ڈرائیورز اور ان کے حامیان نے احتجاج کو دیا ہے۔ سارا فساد 29 جنوری 2022 کو شروع ہوا جب کینیڈا سے امریکہ اور امریکہ سے واپس آنے والے ٹرک ڈرائیورز نے کنیڈین حکام کے کووڈ مینڈیٹ کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا۔ یہ مینڈیٹ کہتا ہے کہ اگر کوئی کنیڈین امریکہ جائے گا اور اسی طرح اگر واپس آئے گا تو اسے لازمی طور پر مکمل ویکسینیٹڈ ہونا ہوگا۔ نہیں تو پھر چلیے چودہ روز کےقرنطینہ میں۔ ارے نہیں نہیں یار! ویکسین کے ذریعے تو مائکرو چپس ہمارے جسم میں داخل کی جا رہی ہیں۔ ان کے ذریعے تو ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ میں تو کبھی مر کے بھی نہ لگواؤں ویکسینز۔
یہ ہے وہ موقف جو مظاہرین میں سے بیشتر نے اپنا رکھا ہے۔ سازشی تھیوریز پر یقین کیے لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے۔ وہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ ٹرک ڈرائیورز نے دارالحکومت آٹووا میں زندگی کو متاثر کر رکھا ہے۔ پارلیمنٹ تک کو گھیر لیا تھا۔ اس کے علاوہ پچھلے دو ہفتوں سے اہم شہراہیں، پل اور امریکہ کے ساتھ کینڈین سرحد کو بھی بلاک کر رکھا ہے۔ پہلے پہل تو کینڈین حکام نے ان پر توجہ نہ دی۔ لیکن جب احتجاج زور پکڑ گیا تو ان کی حکومت دباؤ میں آ گئی۔ یہاں تک کہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاج کرتے لوگ ٹروڈو کی رہائش گاہ تک پہنچ گئے تھے۔ انہیں محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا تھا۔
کینیڈا کی معیشت بہت حد تک اپنی درآمدات و برآمدات کے لیے امریکہ پر انحصار کرتی ہے۔ بہت سی عالمی سپلائی چینز بھی اس سرحد سے منسلک ہے۔ اوپر سے امریکہ اور کینیڈا کے مابین بیشتر ترسیل ٹرکوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہاں کے شہری آزادانہ ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکتے ہیں۔ بڑی زبردست سڑک ہے جو دونوں ممالک کو جوڑتی ہے۔ جب یہ بڑی شاہراہ ہی بلاک ہو گئی تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نتائج کیا پیدا ہو رہے ہوں گے۔ اوپر سے ان کو بلاک بھی ان ٹرک ڈرائیورز نے کیا ہے جو تمام ترسیل کیا کرتے ہیں۔ مطالبات ان کے وہی ہیں۔ ویکسین مینڈیٹ ختم کرو اور ہمیں ان تمام پابندیوں سے آزادی دو جو کورونا کے نام پر لگا رکھی ہیں۔
آپ اس احتجاج کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے اس احتجاج پر اپنی تاریخ کی دوسری ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ ان احتجاج کرنے والوں کو دارالحکومت کو مفلوج کرنے سے بچانے میں ناکامی کے باعث پولیس چیف پیٹر فریلی کو استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے۔ پیر والے دن سے اب تک گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ٹرکوں کو پکڑا جا رہا ہے اور دیگر سختیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن احتجاج اب تک ختم نہیں کیا جا سکا۔ مظاہرین اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا کے بہت سے دائیں بازو کے رہنما اور کچھ علیحدگی پسند رہنما ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو دوہری قسم کی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو مظاہرین کے حامیان ان پر تنقید کر رہے ہیں کہ انہوں نے کینیڈین شہریوں پر ہی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے۔ انہیں شہری حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جو مظاہرین کے مخالفین ہیں، جو قدر لبرل اقدار پر یقین رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں بھئی یہ ذرا سے منظم لوگ ہیں۔ پوری کینڈین قوم کو انہوں نے متاثر کر رکھا ہے۔ اگر انہیں پولیس قابو نہیں کر پا رہی تو فوج بلا لیں۔ کیوں نہیں بلاتے۔ وزیر اعظم دونوں دھڑوں کی ایک سو اسی ڈگری پر تنقید کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔ کینڈین تاریخ کی پہلی ایمرجنسی بھی ٹروڈو کے ابا جان نے 1970 میں لگائی تھی۔
خیر اس سب احتجاج سے عالمی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس پر مضمون لکھا جائے۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور امریکہ میں ان احتجاج سے متاثر ہو کر بھی احتجاج ہوئے ہیں۔ کیونکہ کرونا پر پھیلی سازشی تھیوریز پر یقین کرنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ آپ بتائیے، کیا آپ بھی اسی قسم کی کسی سازشی تھیوری پر یقین کرتے ہیں یا نہیں؟