بزدل

ہجوم سنگ انا اور ضبط پیہم نے
مثال ریگ رواں بے قرار رکھا ہے
مرے وجود کی وحشت نے رات بھر مجھ کو
غبار قافلۂ انتظار رکھا ہے
بہ پیش خدمت چشم سراب آلودہ
ہوا نے دست طلب بار بار رکھا ہے


میں تیری یاد کے جادو میں تھا سحر مجھ کو
نجانے کون سی منزل پہ لا کے چھوڑ گئی
کہ سانس سانس میں تیرے بدن کی خوشبو ہے
قدم قدم پہ تری آہٹوں کا ڈیرا ہے
مگر نظر میں فقط شب زدہ سویرا ہے
تہی تہی سے مناظر ہیں گرد گرد فضا
متاع عمر وہی ایک خواب تیرا ہے


ترے جمال کا پرتو نہیں مگر پھر بھی
خیال آئینہ خانہ سجائے بیٹھا ہے
جدھر بھی آنکھ اٹھاتا ہوں ایک وحشت ہے
تو ہی بتا کہ کہاں تک فریب دوں خود کو
کہ میرا عکس مرے خوف کی شہادت ہے


مرا وجود ہے اور شہر سنگ باراں ہے
بچاؤں جان کہ تعمیر قصر ذات کروں
میں اپنا ہاتھ بغل میں دبائے سوچتا ہوں
مرے نصیب میں سورج کہاں جو بات کروں


میں وادیوں کی مسافت سے کس لیے نکلوں
سفر اک اور پہاڑوں کے پار رکھا ہے