بلندیوں کے دھندلکے میں تھا خدا سا لگا

بلندیوں کے دھندلکے میں تھا خدا سا لگا
جو میں قریب سے گزرا تو وہ شناسا لگا


نہ کوئی جسم تھا اس کا نہ کوئی چہرہ مگر
جہت جہت سے ابھرتی ہوئی صدا سا لگا


عقب میں چھوڑتا آیا شکستگی کا غبار
کہ سنگ میل بھی مجھ کو اک آئنہ سا لگا


بہت نشیب و فراز اس کے طے کیے میں نے
وہ سر سے پاؤں تلک ایک راستا سا لگا


یہی کہا تھا کہ تم سب بدلتے چہرے ہو
ہر ایک شخص مجھے پھر خفا خفا سا لگا


صدائے آمد و شد باعث سفر تھی کمالؔ
نفس نفس مجھے اپنے لہو کا پیاسا لگا