بلند حوصلے عالی جناب رکھتے ہیں
بلند حوصلے عالی جناب رکھتے ہیں
ہم اپنی پلکوں پہ روشن سے خواب رکھتے ہیں
ہزیمتوں کا کہیں بھی تو اندراج نہیں
ہر اک ورق نئی فتحوں کے باب رکھتے ہیں
ہم اپنی پیاس پہ رکھتے ہیں لوگو ضبط عظیم
پتہ ہے خواب کے صحرا سراب رکھتے ہیں
کبھی دراز نہ ہم نے کیا ہے دست طلب
کہ فضل رب پہ یقیں بے حساب رکھتے ہیں
ہو آرزو جنہیں اوج فلک کو چھونے کی
عمل پر اپنے کڑا احتساب رکھتے ہیں
ستم نہ توڑ رعیت پہ وقت کے حاکم
یہ اپنے پہلو میں اک انقلاب رکھتے ہیں
میں اپنے فعل و عمل پر کھری رہی میناؔ
عمل کسوٹی پہ ہم بے حجاب رکھتے ہیں