بجھ گئی آگ تو کمرے میں دھواں ہی رکھنا

بجھ گئی آگ تو کمرے میں دھواں ہی رکھنا
دل میں اک گوشۂ احساس زیاں ہی رکھنا


پھر اسی رہ سے ملے گی نئے ابلاغ کو سمت
شعر کو درد کا اسلوب بیاں ہی رکھنا


آہ منظر کو یہ فرفاتی ہوئی بے سفری
ساتھ پگھلے ہوئے رستوں کے نشاں ہی رکھنا


کہہ نہ سکنا بھی بہت کچھ ہے ریاضت ہو اگر
زخم ہونٹوں کے سر عجز بیاں ہی رکھنا


جیسے وہ سانحہ لمحہ بھی زمانہ بھی ہے سازؔ
یاد اس شخص کے جانے کا سماں ہی رکھنا