نئے بجٹ میں متوسط طبقے کے لیے امیدیں اور خدشات کیا ہیں؟
مالی سال 2021-2022 تمام تر معاشی مشکلات لیے اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے اور پچانوے کھرب یعنی نو اشاریہ پانچ ٹریلین روپے کا بجٹ اگلے سال کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے معاشی اہداف، اخراجات اور آمدن کا تعین کر چکی ہے۔ کہیں سے آواز ہے کہ بجٹ غیر حقیقی ہے یعنی حکومت اپنے تعین کردہ اہداف حاصل نہیں کر پائے گی، کہیں سے آواز ہے کہ ان مشکل حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش ہی نہیں کیا جا سکتا اور کہیں سے آئی ایم ایف کے لیے دہائیاں ہیں۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اپنے تجارتی و جاری خسارے کے باعث بری طرح آئی ایم ایف کے جال میں پھنس چکے ہیں اور ہمارے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بھی گرتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ہمیں قرضہ درکار ہے کہ ہم پاکستان کو ڈیفا لٹ ہونے سے بچا سکیں۔ کم از کم ہمیں بتایا یہی جا رہا ہے۔
یہ باتیں تو آپ آج کل سارا ہی دن سن رہے ہیں۔ لیکن اس مضمون میں ہم اپنی توجہ اس پہلو پر مرکوز کریں گے کہ اس بجٹ سے متوسط اور غریب طبقہ کتنا متاثر ہو سکتا ہے۔
بجٹ کی تقریر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے تین چار نویدیں سنائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بارہ لاکھ سالانہ یا ایک لاکھ ماہ وار تک کمانے والے پر سے آمدن پر لگان یا ٹیکس ہٹا لیا گیا ہے۔ دوسرا وہ جو چالیس ہزار تک کماتے ہیں، اب دو ہزار روپے پٹرول کی سبسڈی کے طور پر پائیں گے۔ اسی طرح حکومتی ملازمین کو تنخواہوں میں پندرہ فیصد کا اضافہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے مختص رقم کو 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
یہ ہیں وہ تین چار آسانیاں جو غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے کی گئی ہیں۔ آئیے دیکھ لیتے ہیں کہ یہ اقدامات کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
حکومت نے ماہوار ایک لاکھ روپے اور سالانہ بارہ لاکھ روپے تک کمانے والے سے آمدن پر ٹیکس نہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ماہوار پچاس ہزار روپے اور سالانہ چھے لاکھ روپے تک کمانے والے کو یہ سہولت حاصل تھی۔ اس سے اوپر بارہ لاکھ تک کی رقم پر پانچ فیصد کا لگان تھا۔ یعنی اگر ایک شخص دس لاکھ سالانہ کما رہا تھا تو اس کے چھے لاکھ سے اوپر کے چار لاکھ پر پانچ فیصد کے حساب سے ٹیکس تھا۔ یہ رقم بیس ہزار روپے سالانہ بنتی ہے۔ اسی طرح بارہ لاکھ کمانے والے کے لیے آمدن پر ٹیکس کی رقم تیس ہزار روپے بنتی ہے جو حکومت نے اب نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو مفتاح اسماعیل کھلے الفاظ میں بتا چکے ہیں کہ ایندھن چاہے پٹرول ہو، گیس یا بجلی، سبسڈیاں سب پر سے ختم کی جائیں گی۔ بلکہ مفتاح صاحب نے تو بجٹ میں سات سو ارب روپے سے زائد رقم پیٹرولیم لیوی کی مد میں اکٹھا کرنے کا ہدف رکھا ہوا ہے۔ یعنی اس وقت جو حکومت 12 سے 23 روپے تک کی فی لیٹر کے پیچھے سبسڈی دے رہی ہے اسے ختم کیا جائے گا اور پھر حکومت کما کر سات سو ارب روپے اگلے مالی سال کے اختتام تک اکٹھا کرے گی۔
ان اقدامات کے بعد حکومت کا اپنا ہدف ہے کہ وہ مہنگائی کی اوسطاً شرح کو 11.5تک محدود رکھنے کی کوشش کرے گی لیکن دیگر ماہرین اس شرح کو 23 سے 30 فیصد تک دیکھ رہے ہیں۔ یعنی وہ متوسط طبقے کا آدمی جو ایک لاکھ روپے ماہ وار تک کما رہا تھا اور جسے حکومت غریب سمجھ کر تیس ہزار روپے تک کی چھوٹ دے رہی تھی، کو اب یا تو 23 سے 30 فیصد کی شرح سے اپنی آمدن میں اضافہ کرنا ہے یا پھر زندگی کی چلتی گاڑی میں سے اپنی کچھ ضروریات کو باہر۔ صرف یہی صورت نظر آتی ہے اس کی بقا کی۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ متوسط طبقے کا آدمی آمدن کو چار پانچ مدوں میں تقسیم کیے ہوئے ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم پر، گھر کے کرائے پر، کچن اور گراسری پر، والدین کی ادوایات پر، ٹرانسپورٹ پر اور کمیٹیوں وغیرہ پر۔ یعنی وہ شاید مشکل ہی کل آمدن سے کچھ بچا رہا ہوتا ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ جب مہنگائی 23 سے 30 فیصد کی شرح سے ہوگی تو وہ کیا کرےگا؟ ان میں سے کون سی ضرورت ایسی ہے جس کے بغیر جیا جا سکتا ہے۔ آپ ان حالات میں خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کی تیس ہزار روپے تک کی چھوٹ کیا انقلاب لا رہی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھیے۔ اس سال اندازہ ہے کہ پاکستان پچھتر ارب ڈالر کی درآمدات کرے گا۔ حکومت کا ہدف ہے کہ اگلے سال اسے گھٹا کر ستر ارب ڈالر تک محدود کیا جائے گا۔ یعنی پانچ ارب ڈالر میں سے بند ہونے والی متعدد اشیا وہ ہوں گی جنہیں لگژری آئٹم کہتے ہیں اور غریب یا متوسط طبقے کا آدمی عام طور پر انہیں استعمال نہیں کرتا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ استعمال نہیں کرتا لیکن بیچتا تو ہے ناں۔ جب درآمدات پر پابندی لگے کی تو اس کا روزگار تو ختم ہوگا ناں۔ اوپر سے جو درآمدات پر ٹیکس لگا کر حکومت ریونیواکٹھا کر رہی تھی اب وہ بھی نہیں آئے گا۔ لیکن حکومت نے اپنا ہدف ضرور بڑھا کر ستر کھرب روپے تک کر دیا ہے۔ اب یہ کہاں سے اکھٹا ہوگا۔ متوسط اور غریب آدمی کی جیب سے ہی ظاہر ہے۔ چاہے وہ بلاواسطہ محصولات کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں۔ اگر وہ کاروباری اشخاص پر اس کا بوجھ منتقل کرے گی تو وہ بڑے آرام سے اپنی اشیا کی قیمتیں بڑھا دے گا۔ پیسے پھر بھی نکلیں گے ایک غریب آدمی کی جیب سے ہی۔
آپ کسی حوالے سے بھی سوچیں، ایک غریب اور متوسط طبقے کے آدمی کے لیے مشکلات ہی نظر آ رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہ قربانی کا وقت ہے اور ہم سب کو اس مشکل وقت سے مل کر نکلنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مشکل وقت گزارنے کے بعد اس ملک میں متوسط اور غریب طبقے کو پھل کھانے کا موقع ملے گا یا اس وقت پھر کوئی ٹانگ کھینچ دے گا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے، سوچیے کا ضرور!