نظم: بتا اے ہم سفر مجھ کو
بتا اے ہمسَفَر مُجھ کو
بتا اے ہم سفَر مجھ کو
کہ تنہائی کی راتوں میں
بِچھڑ جانے کی باتوں میں
کسی کے دامنِ صد چاک
اور اِک دوسرے کے ساتھ سے
محروم ہوتے ، چُھوٹتے ،
ہاتھوں سے ہاتھوں میں
بہت بُھولے ہُوئے رِشتوں
کبھی بِسرے سے ناطوں میں
کبھی جگجیت کی سسکی بھری
مسحور کن ، جنجھوڑتی ،
مِرے اِس بربطِ دل کے
سبھی خاموش ، ساکِت ،
مُنجَمِد تاروں کو
ہر دم چھیڑتی
آواز میں
کِسی قاتِل ادا کے جان لیوا ،
قاتلانہ ، عاشِقانہ ،
پُر سِتَم انداز میں
کبھی اس دم بہ دم بجتے ،
ابَھرتے ، ڈوبتے ، بِہتے ،
سماعت کی حدوں سے دور رہتے ،
زمانوں کی جفا سِہتے ،
وفا کے نام پر ہر بار رُسوائی کا
سودا مول لیتے
زِندگی کے ساز میں
کِسی لمَحہ ، کِسی دِن ، رات ،
تنہائی کے عالَم میں ،
کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ،
کبھی دب کر کِسی دِل میں ،
کبھی چُھپ کر ، تڑَپ کر ،
ٹُوٹ کر ، اور اِس
فصیلِ جِسم و جاں سے بھی
بہت آگے نِکل کر
خود بخود افشا ہوئے جاتے
کسی دیوانگی اور
ہوش کے مابین جاری
کہے اور اَن کہے
کچھ سیدھے سادھے چند لفظوں ،
چند حرفوں،
چند لمحوں کے بیاں ہوتے
کسی اِک راز میں
کیوں ربط سا محسوس ہوتا ہے
بتا اے ہمسَفَر مُجھ کو