بلاؤز
کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا وجود کچاپھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے حتیٰ کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو وہ بیان بھی کرنا چاہتاتو نہ کر سکتا۔
بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیداہوکرمٹ جایا کرتے ہیں۔ مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدّت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے،’’مجھے کوٹنا شروع کر دو۔‘‘
باورچی خانہ میں گرم مصالحہ کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ پیروں کے ذریعے سے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی، جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔مومن کی عمر پندرہ برس کی تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکاتھا۔ جس کا لڑکپن تیز قدمی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا،اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی تھی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا تھامگر ناکام رہتا۔
اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہو گئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی تہ موٹی ہو گئی تھی۔ اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں۔ جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک ایک برنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دوران میں غیرارادی طور پر جب اس کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتاتو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیص کے موٹے اورکھردرے کپڑے سے بھی اس کو تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔
غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہو، مومن اپنی قمیص کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا تھا۔ ہاتھوں سے مسلتا تھا۔ درد ہوتا ٹیسیں اٹھتیں۔ اس کا سارا جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح جسے زور سے ہلایا گیا ہو کانپ کانپ جاتا۔ مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا تھا ۔کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا۔ وہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے۔
گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے سامنے نہ کر سکتا ہو،اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیص کے بٹن بند کر لیتا۔ اور دل میں عہد کرتاکہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اس کھیل میں مشغول ہو جاتا۔
مومن سے گھر والے سب خوش تھے۔ وہ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ہر کام وقت پرکردیتا تھا اور کسی کو شکایت کا موقعہ نہ دیتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبیعت سے متاثر کر لیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر وہ نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دیے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی۔ مگر وہ اب کچھ دنوں سےبےقرارتھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے۔ یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔
اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجا بجانے،نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہیں کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر اُدھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے۔ جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاوز مانگ کر لائی تھی۔ اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی۔ چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔
ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے۔ یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی۔ زیادہ تر باورچی خانے کا کام یہی کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو۔ مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا، اور وہ انقلاب جس میں سے مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا،اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھااس لیے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکتی تھی اور پھر مومن نوکر تھا۔۔۔نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے؟ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔
مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا، زندگی کے ایک ایسے راستے پر آ نکلا تھاجو زیادہ لمبا تو نہیں تھامگر بے حد پرخطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھےکبھی ہولے ہولے۔ وہ دراصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہیے۔ انھیں جلدی طے کر جانا چاہیےیا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہیے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔
غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو۔۔۔ کیا ہو۔۔۔؟ بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چُنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کر دیں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکنا پانی کے ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نالی پر دباؤ ڈالے تو وہ دہری ہو جائےاور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔۔۔ کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔
مومن بہت بے قرار تھا۔
رضیہ نئی فلمی طرزیں سیکھنے میں مشغول تھی۔ اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نمونے اتار رہی تھی۔ اور جب اس نے یہ کام ختم کر لیا تو وہ نمونہ جو ان میں سب سے اچھا تھا سامنے رکھ کر اپنے لیے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجا اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پراطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افراتفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح ہوتی تھی، اس لیے کہ وہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی۔ یوں وقت زیادہ صرف ہوتا تھا مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھرے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی۔ اس کے ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا۔ جب وہ مشین چلاتی تھی یہ ننھے ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب بھی ہو جاتے تھے۔ شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی رعنائی کے ساتھ مشین کی ہتھی کو گھماتی تھیں، اس کی کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا اس طرف کو جھُک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔
جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلا کر اپنے ناپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا اپنا ٹیپ گھِس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا۔ مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاوز موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لیے ساری پیمائشیں دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔قمیص اتار کراس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا،’’جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔‘‘
مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان کے ساتھ ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا،’’کیسا گز بی بی جی۔‘‘ شکیلہ نے جواب دیا،’’کپڑے کا گز۔۔۔ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے، یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے جو کپڑے کا بنا ہوتا ہے۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔‘‘
چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے یہ گز اس کے ہاتھ سے لیا اور کہا،’’یہیں ٹھہر جاؤ،اسے ابھی واپس لے جانا۔‘‘ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی،’’ان لوگوں کی کوئی چیز زیادہ دیر اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کرکرکے پریشان کر دیتی ہے۔۔۔ ادھر آؤ اور یہ گز لو اور یہاں سے میرا ناپ لو۔‘‘رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ناپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئی۔ مومن دروازے کی دہلیز میں کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔
’’رضیہ تم گز کو کھینچ کر ناپ کیوں نہیں لیتیں۔۔۔ پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ تم نے ناپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہو گیا۔ اوپر کے حصّہ پر اگر کپڑا فِٹ نہ آئے تو ادھر اُدھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔‘‘
’’کہاں کالوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ناپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کر لو۔۔۔ ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی۔‘‘
’’بھئی واہ۔۔۔ چیز کے فٹ ہونے میں تو ساری خوبصورتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے۔۔۔ لو اب تم ناپ لو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے سے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیاتو سانس روک کر اُس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا’’لو اب جلدی کرو۔‘‘ جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوااس کے اندر کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا،’’گز لائیے بی بی جی۔۔۔ میں دے آؤں۔‘‘
شکیلہ نے اسے جھڑک دیا،’’ذرا ٹھہر جاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ،کپڑے کا گز، اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اُگ رہے تھے۔ مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔۔۔بچپن میں وہ بھٹوں کے کالے اور سنہرے بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوا کرتی تھی، اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔
شکیلہ کا بازو اب نیچے جھُک گیا تھا۔ اور اس کی بغل چھُپ گئی تھی۔ مگر مومن اب بھی کالے کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔تھوڑی دیر کے بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا،’’جاؤ، اُسے واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیا ہے۔‘‘ مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے سے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک وہ ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا جس میں اس نے عید کے لیے نئے کپڑے بنوا کر رکھے تھے۔
جب ٹرنک کا ڈھکنا کھلا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر اور یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔۔۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی۔ ۔۔اور اس کی رومی ٹوپی۔۔۔‘‘ رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا۔اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیاجو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھاکہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی،’’مومن!‘‘
مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیااور اندر چلا گیا۔ جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی’’میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں،سو گئے تھے کیا؟‘‘ مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔’’نہیں بی بی جی۔‘‘
’’تو کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’کچھ۔۔۔ کچھ بھی نہیں؟‘‘
’’کچھ تو ضرور کرتے ہو گے؟‘‘ شکیلہ یہ سوال کیے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا۔ جسے ا ب اسے کچّا کرنا تھا۔مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا،’’ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔شکیلہ کھکھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب سی تسکین ہوئی۔ اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے۔ چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اس نے کہا،’’بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لاؤں گا۔‘‘
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا،’’کیا کرو گے اس رومال کو؟‘‘ مومن نے جھینپ کر جواب دیا،’’گلے میں باندھ لوں گا بی بی جی۔۔۔ بڑا اچھا معلوم ہو گا۔‘‘ یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔ ’’گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا میں اسی سے پھانسی دے دوں گی تمھیں۔‘‘ یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا،’’کمبخت نے مجھے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟‘‘
رضیہ نے جواب نہ دیااور وہ نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آ گیاکہ اس نے مومن کو کیوں بلایا تھا۔ ’’دیکھو مومن! میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کی دوکان کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہی جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کا وہ کیالےگا۔۔۔ کہنا ہم پوری چھ لیں گے۔ اس لیے کچھ رعایت ضرور کرے۔۔۔ سمجھ لیا نا؟‘‘ مومن نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
’’اب تم پرے ہٹ جاؤ۔‘‘
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آکر گرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی،’’کہنا ہم اسی قسم، اسی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے،فرق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی ہٹا لیا ہو۔ بدن کی بُو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔ وہ اس بنیان کو جو بلّی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ واؤ دریافت کرکے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس سیاہی مائل ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچکدار تھی۔
یہ بلاؤز شاید عید کے لیے تیار کیا جا رہا تھاکیونکہ عید اب بالکل قریب آگئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کے لیے، استری نکالنے کے لیے،سُوئی ٹوٹی تو نئی سوئی لانے کے لیے۔ شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اُودی ساٹن کی بیکار کتریں اٹھانے کے لیے بھی اسے بلایا گیا۔مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر اودی ساٹن کی چمکدار کتریں اپنی جیب میں رکھ لیں۔۔۔ بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کو کیا کرے گا؟
دوسرے روز اس نے جیب سے کتریں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا۔۔۔ لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا چھوٹا سا گُچھا دیکھا تھا۔
اس دن بھی شکیلہ نے اسے کئی بار بلایا۔۔۔ کالی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔ پہلے جب اسے کچّا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جابجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری کی گئی۔ جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں۔ اور چمک بھی دو بالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا،رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھا رمیز کے پاس جا کر آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی طرح دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا، جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھاوہاں نشان بنائے، اور اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا۔ جب بالکل فِٹ ہو گیا تو پکّی سلائی شروع کی۔
ادھر اودی ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا۔ ادھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کےجیسے ٹانکے سے ادھڑ رہے تھے۔۔۔ جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے۔ صرف چھو کر ہی نہیں دیکھے۔۔۔ بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔۔۔ اپنے کھُردرے ہاتھ۔ اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گُچھا بنایا تھا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑ سی لچک بھی ہے۔۔۔ وہ جب اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا اس کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال مومن سوچتا تھاکیا وہ بھی اس ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے۔
بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا۔۔۔مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیص اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھاجس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا۔۔۔ اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سِلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہُک لگائے اور آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
مومن نے فرش صاف کرتے کرتے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔۔۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے۔۔۔ شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی۔ جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی ۔مومن سے نہ رہا گیا، چنانچہ اُس نے کہا،’’بی بی جی! آپ نے تو درزیوں کو بھی مات کر دیا!‘‘
شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ اس لیے وہ صرف ’’اچھا سِلا ہے نا؟‘‘ کہہ کر باہر دوڑ گئی۔۔۔ مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صُراحی رکھنے کے لیے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غور سے دیکھا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے اسے یہ محسوس ہواکہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روئیں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔
رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اُوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا۔ جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ایک ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا۔یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھےجن کا گولہ بنا ہوا تھا۔پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنا شروع ہوئے۔ بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے۔
پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔۔۔پھندنے کی تلاش میں وہ نکلا۔۔۔ دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔ نئے لٹھے کی بوبھی کہیں سے آنا شروع ہوئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ ایک کالی ساٹن کے بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا۔۔۔ کچھ دیر وہ اس دھڑکتی ہوئی چیز پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتاً ہڑ بڑا کے اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی۔۔۔ پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی تھی مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پر رینگنے لگی۔