بلیک ہول: کیا یہ قیامت کی نشانی ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟

ہماری کہکشاں میں واقع" بلیک ہول" کی تصویری شہادت حاصل کر لی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب بلیک ہول جیسے پُر اسرار کائناتی جسم کو حقیقت میں دیکھنا ممکن ہوپایا ہے۔ خبرمطابق سائنسدان ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے قریب واقع ایک بلیک ہول کی تصویر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

بلیک ہول کیا ہے، یہ کائنات میں کہاں پائے جاتے ہیں؟ نئی موصول ہونے والی تصاویر سے کیا معلوم ہورہا ہے؟ آئیے جانتے ہیں اس تحریر میں

آئن سٹائن نے 1915ء میں جب اپنے" عمومی نظریہ اضافیت"  کی مساواتوں کی مدد سے کائنات کا ماڈل تیار کیا تو اس نے حسابی طور پر چند ایسے بھاری بھر کم فلکی اجسام کی پیش گوئی کی جو بے پناہ کشش ثقل کے حامل ہوں گے۔نیز اس نے ایسے ہی بھاری بھر کم اجسام کے باہمی ملاپ کی صورت میں پیدا ہونے والی "ثقلی موجوں" (گریوی ٹیشنل ویوز) کی بھی پیش گوئی کی۔ یہ ثقلی موجیں 100 سال بعد یعنی 2016 میں دریافت ہو گئیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود آئین سٹائن کو ایسے بھاری اجسام کی موجودگی کا یقین نہیں تھا۔ تاہم 50 سال بعد ان کی موجودگی کی سائنسی شہادت حاصل ہو گئی۔ آج ہم انھیں "بلیک ہول" کے نام سے جانتے ہیں۔

100 سال سے بھی زائد عرصے کی تحقیق کے باوجود ان کی تصویر حاصل نہیں کی جا سکی تھی لیکن پھر 2016 میں ماہرین فلکیات نے بالآخر ایک دوسری کہکشاں میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول (M87)کی تصویر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

بلیک ہول کے بارے میں تازہ خبر

بلیک ہول کی پہلی بار اصلی تصویر منظر عام پر: تصویر کریڈٹ ناسا

اب تازہ خبر یہ ہے کہ سائنسدان ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے قریب واقع ایک بلیک ہول کی تصویر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ تصویر   "بیس لائن ایرے انٹر فیومیٹری " (VLBI) نامی کئی ریڈیائی دوربینوں کی مدد سے تیار کی گئی ہے  اور اس ایک تصویر کی تیاری کے لیے لاکھوں گیگا بائٹس کے ڈیٹا کو سمارٹ الگورتھم اور سپر کمپیوٹرز کی سینکڑوں گھنٹوں کی پراسیسنگ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ 

تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے عین درمیان وہ تاریک علاقہ ہے کہ جہاں انتہائی شدید کشش ثقل پائی جاتی ہے اور روشنی بھی وہاں سے فرار نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اطراف میں نظر آنے والال سرخ دائرہ سائنسی زبان میں "واقعاتی افق "  (Event Horizon) کہلاتا ہے ۔  یعنی وہ حد کہ جس کے اندر ایک روشنی کی شعاع بھی اسپیس ٹائم میں گھماؤ کی وجہ سے اپنے اوپر جھک جاتی ہے ۔

بلیک ہول کی پراسراریت

بلیک ہول کاشمارکائنات کے عجائبات میں ہوتاہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ بلیک ہولز نئی کائناتوں اورحتیٰ کہ نئی جہتوں(ڈائمینشنز)کے پیداہونے کی جگہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت کی ابتدااورانتہاکی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں۔ سائنس فکشن کے دلدادہ کئی ماہرین انھیں وقت میں سفرکرنے والی ممکنہ ٹائم مشینیں قراردیتے ہیں توکچھ لوگ انھیں روشنی سے بھی زیادہ تیزی سے سفرکرنے والے راستے تصورکرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کونیات کاخیال ہے کہ بلیک ہولزمستقبل کے توانائی کے ذرائع ہوسکتے ہیں جوپوری کہکشاں کے پاوراسٹیشنزکوتوانائی فراہم کرسکیں گے۔ 

بلیک ہول کی   تعریف

                کوئی بلیک ہول اس وقت بنتاہے جب سورج سے کم از کم دوگنی کمیت(ماس) کاکوئی مرتاہواستارہ اپنی ہی کشش ثقل کے تحت سکڑتاہے۔ اس موقع پروہ اپناتمام ترنیوکلیائی ایندھن (روشنی اور حرارت کی شکل میں ) پھونک چکاہوتاہے لہٰذااس کے پاس کوئی ایساذریعہ نہیں ہوتاکہ جس کی مددسے وہ اپنی ہرلمحے بڑھتی ہوئی کشش ثقل کوروک سکے۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس ستارے میں قوت ثقل کی شدت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اوروہ اپنے آپ میں منہدم ہونے کاسلسلہ جاری رکھتاہے۔ جوں جوں وہ ستارہ سکڑتاہے،توں توں اس کی قوتِ ثقل میں بھی اضافہ ہوتاچلاجاتاہے۔ آخرکاروہ ستارہ اس قدرسکڑجاتاہے کہ اس کی ساری کی ساری کمیت”صفرحجم“(ریاضیاتی نقطے)میں سمٹ آتی ہے، جبکہ اس کی قوت ثقل اتنی شدیداورمرتکزہوجاتی ہے کہ کوئی بھی چیز، حتیٰ کہ روشنی بھی، وہاں سے فرارنہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ضخیم مردہ ستاروں کو”بلیک ہول“یعنی سیاہ سوراخ بھی کہاجاتاہے کیونکہ ان پرپڑنے والی روشنی کبھی پلٹ کرواپس نہیں آتی۔

 بلیک ہول کی دریافت

                ہم بتاچکے ہیں کہ بلیک ہول درحقیقت کوئی کنواں یاسوراخ نہیں ہے بلکہ یہ اپنے آپ میں منہدم ہوجانے والاستارہ ہوتاہے جس کی شدیدقوت ثقل سے روشنی بھی فرارنہیں ہوسکتی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے بلیک ہول کودیکھنابھی ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ اس کی دریافت کاسہرہ دوسائنسدانوں( کارل شوارزچائلڈ اورجان ویلر ) کے سرہے تاہم بلیک ہول کی تفصیلی وضاحت کئی ماہرین کے نظریات کی بدولت ممکن ہوسکی ہے۔

                  روشنی کے ذراتی مفروضے کی بنیادپرکیمبرج کے ایک ڈین، جان مچل نے 1783ءمیں اپنے ایک تحقیقی مقالے میں نشاندہی کی تھی کہ اگرکوئی ستارہ مناسب حدتک زیادہ کمیت والااورجسامت کے اعتبارسے مختصرہوتواس کاثقلی میدان(یعنی اس کی قوت ثقل)اتناطاقتورہوگاکہ روشنی بھی اس سے فرارنہیں ہوسکے گی۔ ایسے کسی ستارے کی سطح سے خارج ہونے والی روشنی کی کوئی بھی کرن، اس کی کشش ثقل کی وجہ سے زیادہ اوپرنہیں اٹھ پائے گی اورستارے کی سطح سے کچھ دورجانے کے بعدواپس پلٹ آئے گی۔ مچل نے خیال پیش کیاکہ ایسے ستاروں کی بہت بڑی تعدادموجودہوسکتی ہے۔ اگرچہ ہم ان ستاروں کودیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی روشنی ہم تک پہنچنے سے قاصرہوگی، لیکن پھربھی ہم ان کی کشش ثقل کااحساس ضرورکرسکیں گے۔ کم وبیش یہی خیال کچھ سال بعدایک فرانسیسی سائنسدان مارکیزڈی لاپلاس نے بظاہرمچل سے بالکل آزادانہ طورپرپیش کیا۔ تاہم اس وقت تک ریاضیاتی طورپربلیک ہول کی کوئی وضاحت فراہم نہ کی جاسکی تھی۔

                بلیک ہول کاباقاعدہ سائنسی تصور1916ءمیں پیش کیاگیا۔ اس سائنسی تصورکے لئے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے ٹھوس بنیادفراہم کی۔ جرمن ماہرفلکیات کارل شوارزچائلڈاپنے بچپن سے ہی فلکیات میں گہری دلچسپی رکھتاتھا۔ اس نے 1889ءمیں، صرف سولہ سال کی عمرمیں، اپنے اولین مضامین شائع کرائے جن میں ثنائی ستاروں(double stars)کی حرکت کی وضاحت بیان کی گئی تھی۔ 1900ءمیں، شوارزچائلڈنے جرمن اسٹرانومیکل سوسائٹی کودئیے گئے ایک لیکچرمیں یہ نظریہ پیش کیاکہ خلاایک باقاعدہ سہہ جہتی ڈبے کی طرح عمل نہیں کرتی بلکہ یہ مختلف طریقوں سے خم کھاتی ہے اورکشش کے ذریعے کھنچتی یادورہوتی ہے۔ شوارزچائلڈنے اسے ”خلاکی خمیدگی“ کانام دیا۔ پانچ سال بعد، آئن سٹائن نے اپنانظریہ اضافیت شائع کرایاجس میں اس نے خلا(مکاں)کے خم کوبیان کیا۔ 1916ءمیں شوارزچائلڈوہ پہلاشخص تھاجس نے عمومی نظریہ اضافیت کی مساواتوں کوحل کیا۔ ان مساواتوں کی مددسے اس نے پہلی بارباقاعدہ ریاضیاتی طورپرحساب لگایاکہ جب کوئی ستارہ ناقابل تصورکثیف مادے کے ایک نقطے پرمنہدم ہوتاہے تواس کی ثقلی کشش اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی فراری ولاسٹی روشنی کی رفتارسے بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے منہدم ستارے سے (روشنی سمیت)کوئی بھی چیزفرارنہیں ہوسکتی۔ اس طرح گویایہ ستارہ نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ اس وقت تک ایسے ستاروں کو”بلیک ہول“کی بجائے محض”منہدم ستارے“(collapsed stars)کہاجاتاتھا۔

                ان اعدادوشمارکی مددسے شوارزچائلڈنے پہلی باربلیک ہول کی موجودگی کے لیےسائنسی اورریاضیاتی وضاحت فراہم کی۔ آج ہم بلیک ہول کے ضمن میں جواصطلاحات (مثلاََ واقعاتی افق، فراری رفتاروغیرہ )استعمال کرتے ہیں، یہ 1916ءمیں شوارزچائلڈنے ہی وضع کی تھیں۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ اگرچہ شوارزچائلڈنے ”ریاضیاتی “طورپرتوبلیک ہول کاوجودثابت کردیاتھالیکن اسے خودبھی مکمل یقین نہیں تھاکہ ایسے ستارے طبیعی طورپرموجودہوں گے یانہیں۔ اس کے خیال میں یہ محض ایک ریاضیاتی مشق تھی۔

                50سال بعد، ماہرین فلکیات نے سنجیدگی کے ساتھ ان دکھائی نہ دینے والے منہدم ستاروں کی تلاش شروع کی۔ ماہرین نے محسوس کیاکہ اگرچہ کسی بلیک ہول کودیکھناممکن نہیں ہے لیکن اس کاسراغ لگانے کاایک طریقہ یہ ہے کہ کسی ستارے کی ایسی غیرمعمولی حرکت کودیکھاجائے جو دکھائی نہ دینے والے کسی قریبی بلیک ہول کی ثقلی کشش کے نتیجے میں واقع ہورہی ہو۔ 1969ءمیں جان ویلرنامی ایک امریکی ماہرفلکیات نے ایسے منہدم ستاروں کے لئے پہلی بار”بلیک ہول“کی اصطلاح وضع کی۔ 1971ءمیں جان ویلرنے اپنی ٹیم کے ساتھ ”سائگنس ایکس ون“(Cygnus X-1)نامی ایک نیاثنائی ستارہ دریافت کیاجوایک غیرمرئی ستارے کے گردحرکت کررہاتھا۔انھوں نے دیکھاکہ ”سائگنس ایکس ون“ستارے کی سطح سے اٹھنے والی گرم گیسیں جوں جوں اس کے نادیدہ پڑوسی ستارے کی طرف بڑھتی ہیں، توں توں ان کی حرکت مرغولہ نما(spiral)شکل کی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ٹب کے پیندے سے ڈاٹ نکالنے پراس میں بھراہواپانی گول گول چکرکھاتاہواباہرنکل جاتاہے۔ اس عمل کی وضاحت صرف بلیک ہول کی موجودگی سے ہی ممکن تھی۔ یہ پہلی بارتھاکہ کسی بلیک ہول کی موجودگی کاطبیعی سراغ لگایاگیاتھا۔

                2004ءمیں یونیورسٹی آف ساﺅتھیمپٹن کے پروفیسرفِل چارلس اوریونیورسٹی آف ایریزوناکے مارک واگزنے ہماری ملکی وے کہکشاں میں اولین بلیک ہول کی شناخت کی تاہم یہ شناخت اس کے ثقلی اثرات کی وجہ سے کی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی بلیک ہول دریافت کئے گئے تاہم ان کی تصاویر نہ لی جا سکیں۔  بلیک ہول کی پہلی تصویر 2016 میں حاصل کی جاسکی۔

ناسا کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو میں بلیک ہول کی پہلی بار اصلی تصاویر ملاحظہ کیجیے۔

 

متعلقہ عنوانات